تشریح:
(1) دنیاوی معاملات سے الگ تھلگ ہو کر تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں کچھ وقت مسجد میں قیام کرنے کو شرعاً اعتکاف کہا جاتا ہے۔ اگر مسجد میں قیام کے دوران تقرب الٰہی کی نیت نہیں یا تقرب الٰہی کی نیت تو ہے لیکن مسجد میں قیام نہیں تو ان دونوں صورتوں کو شرعی اعتکاف نہیں کہا جائے گا۔ (2) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد میں قیام کے دوران اپنی کوئی دنیاوی ضرورت پوری کرنا اعتکاف کے منافی ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اسی موضوع کو بیان کیا ہے کہ معتکف اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر صرف مسجد کے دروازے تک آ سکتا ہے اور ایسا کرنا اعتکاف کے منافی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھر مسجد نبوی کے آس پاس تھے۔ ایک دفعہ جب آپ معتکف ہوئے تو رات کے وقت گھریلو معاملات کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے ازواج مطہرات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ حضرت صفیہ ؓ کا گھر ذرا دور تھا۔ وہ رات کے وقت دیر سے آئیں۔ جب ازواج مطہرات مجلس کے اختتام پر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے اٹھیں تو حضرت صفیہ بھی تیار ہو گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک لیا، ایک تو دیر سے آنے کی بنا پر تاکہ انہیں بھی دوسری ازواج کی طرح پورا وقت آپ کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملے، نیز اس لیے بھی کہ ان کا گھر دور تھا اور انہیں گھر تک پہنچانے کے لیے آپ نے انہیں روک لیا۔ اس دوران میں دو انصاری حضرات سے ملاقات ہوئی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں مسجد کے اندر قیام کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ معتکف اس دوران مسجد میں اپنی کوئی دنیاوی ضرورت نہیں پوری کر سکتا۔ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ اعتکاف کے منافی نہیں۔ (فتح الباري:353/4 ،354)