باب: لوگوں کے جھگڑے کی بنا پر شب قدر کی پہچان کا اٹھ جانا
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of the Night of Qadr
(Chapter: The knowledge of the night of Qadr was taken away because of the quarrelling)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2035.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
تشریح:
(1) آخری عشرے کی طاق راتیں یہ ہیں: 21، 23، 25، 27، 29۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق شب قدر عموماً ان راتوں میں ہوتی ہے لیکن اس کی تعیین نہیں ہے۔ اس کی تعیین نہ ہونے میں بھی ہماری ہی بھلائی ہے کہ ہم ان راتوں میں اللہ کی عبادت کریں۔ اگر ہم نے ان راتوں میں عبادت کی لیکن شب قدر کا احساس یا ادراک نہ بھی ہوا تو بھی ہم اس کے ثواب اور اس کی خیروبرکت سے محروم نہیں ہوں گے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شب قدر رمضان ہی میں ہوتی ہے، پھر اس کا امکان آخری عشرے میں ہے، اس کے بعد آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کیا جائے لیکن اس کا تعیین کسی خاص تاریخ سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں آنے والی جملہ احادیث سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:330/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1958
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2017
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2017
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2017
تمہید کتاب
رمضان المبارک میں تین کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں: نماز تراویح، لیلۃ القدر اور اعتکاف۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان کے عمومی احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد اب تین خصوصی مسائل ذکر کیے ہیں، قبل ازیں نماز تراویح کے متعلق احادیث ذکر کی تھیں۔ اب لیلۃ القدر کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام بیان کریں گے، اس کے بعد اعتکاف کا ذکر ہو گا۔ باذن اللہ تعالیٰ۔اس رات کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک قرآن مجید کو اس رات میں اتارا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾) (القدر1:97) "بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔" ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ) (البقرۃ185:2) "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔" اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کا فرشتہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ رمضان المبارک ہی کی ایک رات تھی۔ اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر اسے "بابرکت رات" سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ) (الدخان3:44) "ہم نے اسے بہت برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"مفسرین نے قدر کے کئی ایک معانی لکھے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے ہیں، یعنی وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورۂ دخان کی ایک آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾) (الدخان5:44) "اُس رات میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔"بالفاظ دیگر یہ رات کوئی عام راتوں جیسی نہیں بلکہ یہ قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے والی رات ہے۔ اس رات میں اس کتاب کا نزول ایسا کام ہے جو نہ صرف قریش، نہ صرف عرب بلکہ عام رنگ و بو کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدرومنزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے، یعنی جس رات میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ کیا گیا وہ اتنی خیروبرکت والی رات تھی کہ انسانی تاریخ میں کبھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس رات میں کر دیا گیا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ قدر، تنگی کے معنی میں ہے، یعنی اس کی تعیین لوگوں سے مخفی رکھی گئی ہے تاکہ اس کی تلاش میں خود کو تنگی میں ڈالیں اور مشقت برداشت کر کے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں۔ اس بنا پر بھی اسے تنگی کی رات کہا جاتا ہے کہ اس رات اللہ کی طرف سے اس قدر رحمت کے فرشتے اترتے ہیں کہ ان کی وجہ سے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:4/324،323)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف شب قدر کی فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ اس کے متعلق کئی ایک حقائق اور مسائل و احکام سے بھی آگاہ کیا ہے، چنانچہ آپ نے گیارہ مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں شب قدر کی فضیلت، آخری سات بالخصوص طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا، لوگوں کے جھگڑے کی نحوست سے اس کی تعیین کا پس منظر میں چلے جانا اور رمضان کے آخری عشرے میں کیا کرنا چاہیے، نیز اس طرح کے دیگر اسنادی اسرارورموز سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اپنی مخلص دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں اور اگر کسی کو ماہ رمضان میں شب قدر کا احساس ہو جائے تو دعا کرتے وقت اس امت کی کامیابی اور معافی کی اللہ کے ہاں درخواست کو فراموش نہ کرے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) آخری عشرے کی طاق راتیں یہ ہیں: 21، 23، 25، 27، 29۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق شب قدر عموماً ان راتوں میں ہوتی ہے لیکن اس کی تعیین نہیں ہے۔ اس کی تعیین نہ ہونے میں بھی ہماری ہی بھلائی ہے کہ ہم ان راتوں میں اللہ کی عبادت کریں۔ اگر ہم نے ان راتوں میں عبادت کی لیکن شب قدر کا احساس یا ادراک نہ بھی ہوا تو بھی ہم اس کے ثواب اور اس کی خیروبرکت سے محروم نہیں ہوں گے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شب قدر رمضان ہی میں ہوتی ہے، پھر اس کا امکان آخری عشرے میں ہے، اس کے بعد آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کیا جائے لیکن اس کا تعیین کسی خاص تاریخ سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں آنے والی جملہ احادیث سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:330/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوسہیل نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ مالک بن عامر نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Search for the Night of Qadr in the odd nights of the last ten days of Ramadan."