تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے، مثلاً: معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملے اور انہیں اعزاز و اکرام سے رخصت کرے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اپنی بیوی سے خلوت بھی جائز ہے، یعنی تنہائی میں اس سے ضروری اور مناسب بات چیت کر سکتا ہے، نیز اس کی بیوی اس کی ملاقات کے لیے اعتکاف گاہ میں آ سکتی ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بوقت ضرورت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابۂ کرام ؓ کی طرف اس بات کو منسوب نہیں کیا کہ وہ آپ کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں کیونکہ آپ ان کے ایمان کی سچائی اور اخلاص سے خوب واقف تھے، البتہ انہیں اس بات سے خبردار کیا کہ مبادا شیطان کے وسوسے کا شکار ہو جائیں جو ان کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے۔ (فتح الباري:355/4)