تشریح:
(1) ہر انسان کو حق ہے کہ وہ قول اور عمل سے اپنا دفاع کرے۔ یہ کام دوران اعتکاف بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دوران اعتکاف میں اپنا دفاع بایں الفاظ کیا: ’’جسے تم نے میرے ساتھ رات کے وقت دیکھا ہے وہ میری بیوی صفیہ ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم میرے متعلق بدگمانی کا شکار ہو لیکن تمہیں اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ شیطان، انسان کے رگ و ریشے میں خون کی طرح دوڑ جاتا ہے اور اسے علم بھی نہیں ہوتا۔‘‘(فتح الباري:355/4) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بدگمانی اور شیطانی مکروفریب سے خود کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر علماء حضرات کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے لوگ ان کے متعلق بدگمانی میں مبتلا ہو جائیں اگرچہ اس کام میں مخلص ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم سے فائدہ حاصل کرنا ختم ہو جائے گا۔ کوئی شخص بطور تجربہ بھی ایسا کام نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ (عمدةالقاري:282/8)