تشریح:
(1) دور جاہلیت میں لونڈیاں زنا کرتی تھیں اور بڑے بڑے امراء ان کے پاس آتے تھے، جب کوئی لونڈی اس غلط کاری کے نتیجے میں حاملہ ہوجاتی تو کبھی اس کا مالک دعوی کرتا اور کبھی زانی اقرار کرتا کہ یہ حمل اس کا ہے ۔حضرت ام المومنین سودہ ؓ کے والد زمعہ کی لونڈی کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا، اس سے عقبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی۔اس نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل میرے نطفے سے ہے۔جب وہ بچہ جنم لے تو اسے اپنی تحویل میں لے لینا۔فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لینا چاہا لیکن زمعہ کا بیٹا آڑے آیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے جاہلیت کا قانون باطل قرار دیتے ہوئے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:’’بچہ صاحب فراش( بستر والے) کا ہے اور زانی اس سے محروم ہے ۔‘‘ مگر بچے کی مشابہت عقبہ بن ابی وقاص سے تھی، اس شبہے کی بنیاد پر آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس لڑکے سے پردہ کریں اگرچہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناتے سے اس لڑکے کی بہن تھیں۔(2)امام بخاری ؒ کے نزدیک حضرت سودہ ؓ کو پردے کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطاً دیا گیا کیونکہ باندی کے ناجائز تعلقات عقبہ کے ساتھ تھے اور بچے کی شکل و صورت بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اشتباہ کی تفسیر فرمائی اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم ثابت کیا۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا حضرت سودہ ؓ کو اس بچے سے پردہ کرنے کا حکم دینا ہے،حالانکہ نبی ﷺ نے قانون اور شرعی اعتبار سے اسے ان کا بھائی قرار دیا تھا مگر اس بات کا قومی شبہ تھا کہ وہ عقبہ ہی کا لڑکا ہو جیسا کہ شکل وصورت کی ہم آہنگی سے پتہ چلتا تھا،اس لیے احتیاط کے پیش نظر آپ نے پردے کا حکم دیا۔ ( فتح الباري:371/4)