صحیح بخاری
34. کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
2. باب: حلال کھلا ہوا ہے او رحرام بھی کھلا ہوا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں
باب: حلال کھلا ہوا ہے او رحرام بھی کھلا ہوا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Legal, illegal, and doubtful things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2069.
حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) مشتبہ چیزوں سے مراد وہ ہیں جن کی حدیں حلال اور حرام دونوں سے ملتی ہوں۔اس بنا پر کچھ لوگ ان کی حلت وحرمت کا فیصلہ نہ کرسکیں۔فی نفسہ وہ چیزیں مشتبہ نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیج کر دین کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کردیا ہے۔پرہیز گاری یہی ہے کہ انسان شکوک وشبہات والی چیزوں سے بھی الگ تھلگ رہے۔اس حدیث کو اکثر محدثین کتاب البیوع میں بیان کرتے ہیں کیونکہ معاملات میں اکثر اشتباہ پڑجاتا ہے،نیز اس کا تعلق نکاح، شکار، ذبیحہ، کھانے اور پینے سے بھی ہے۔(2) اس حدیث میں احکام کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں: ٭ جس کے کرنے پر نص اور ترک پر وعید ہو۔ اس کا تعلق حلال بین سے ہے۔٭جس کے ترک کرنے پر نص اور کرنے پر وعید ہو۔یہ حرام بین سے متعلق ہے ۔٭جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی نص یا وعید نہ ہو۔ اس قسم کو مشتبہ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔اس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس کا تعلق حرام سے ہے تو اس کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا اور اگر حلال سے ہے تو بھی حسن نیت کی بنا پر اس کے چھوڑنے سے اجرو ثواب ملے گا۔ (فتح الباری:369/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1991
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2051
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2051
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2051
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
مشتبہات وہ ہیں جن کی حلت یا حرمت کے بارے میں ہم کو قرآن و حدیث میں کوئی واضح ہدایت نہ ملے۔ کچھ وجوہ ان میں حلال ہونے کے نظر آئیں، کچھ حرام ہونے کے۔ ان حالات میں ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے یہی باب کا مقصد ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مشتبہ چیزوں سے مراد وہ ہیں جن کی حدیں حلال اور حرام دونوں سے ملتی ہوں۔اس بنا پر کچھ لوگ ان کی حلت وحرمت کا فیصلہ نہ کرسکیں۔فی نفسہ وہ چیزیں مشتبہ نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیج کر دین کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کردیا ہے۔پرہیز گاری یہی ہے کہ انسان شکوک وشبہات والی چیزوں سے بھی الگ تھلگ رہے۔اس حدیث کو اکثر محدثین کتاب البیوع میں بیان کرتے ہیں کیونکہ معاملات میں اکثر اشتباہ پڑجاتا ہے،نیز اس کا تعلق نکاح، شکار، ذبیحہ، کھانے اور پینے سے بھی ہے۔(2) اس حدیث میں احکام کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں: ٭ جس کے کرنے پر نص اور ترک پر وعید ہو۔ اس کا تعلق حلال بین سے ہے۔٭جس کے ترک کرنے پر نص اور کرنے پر وعید ہو۔یہ حرام بین سے متعلق ہے ۔٭جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی نص یا وعید نہ ہو۔ اس قسم کو مشتبہ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔اس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس کا تعلق حرام سے ہے تو اس کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا اور اگر حلال سے ہے تو بھی حسن نیت کی بنا پر اس کے چھوڑنے سے اجرو ثواب ملے گا۔ (فتح الباری:369/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے، ان سے شعبی نے، انہوں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ( دوسری سند امام بخاری نے کہا ) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، ان سے شعبی نے، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا، اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ( تیسری سند ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، انہوں نے شعبی سے سنا، انہوں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا اور انہوں نبی کریم ﷺ سے ( چوتھی سند ) او رہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبردی، انہیں ابوفروہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے سے نعمان بن بشیر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اورحرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے وہ ان چیزوں کو تو ضرور ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طو رپر گناہ ہیں ( لوگو یاد رکھو ) گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ ہے جو ( جانور بھی ) چراگاہ کے ارد گرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں۔
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں عربی شیوخ و امراء اپنی چراگاہیں مخصوص رکھا کرتے تھے ان میں کوئی غیر آدمی اپنے جانوروں کو نہیں داخل کرسکتا تھا۔ اس لیے غریب لوگ ان چراگاہوں کے قریب بھی نہ جاتے کہ مبادا ان کے جانور اس میں داخل ہو جائیں اور وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق گردانے جائیں۔ حدود اللہ کو بھی ایسی ہی چراگاہوں سے تشبیہ دی گئی اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ حدود اللہ کے قریب بھی نہ جاؤ کہ کہیں ان کے توڑنے کے مرتکب ہو کر عنداللہ مجرم ٹھہرو۔ حدیث ہذا میں معاصی کو اللہ کی چراگاہ بتلایا گیا ہے۔ جو معاصی سے دور رہنے کے لیے ایک انتہائی تنبیہ ہے۔ ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اورحرام کے درمیان جو امور مشتبہات ہیں ان سے بھی پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے، اس لیے جو مشتبہات سے بچ گیا وہ سلامت رہا۔ حرمات اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے کہ جس طرح امراء و زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہوجانے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں چگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہوجاتے ہیں۔ وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ اور افعال مشتبہات سے پرہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امورحرام کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man bin Bashir (RA): The Prophet (ﷺ) said "Both legal and illegal things are obvious, and in between them are (suspicious) doubtful matters. So who-ever forsakes those doubtful things lest he may commit a sin, will definitely avoid what is clearly illegal; and who-ever indulges in these (suspicious) doubtful things bravely, is likely to commit what is clearly illegal. Sins are Allah's Hima (i.e. private pasture) and whoever pastures (his sheep) near it, is likely to get in it at any moment."