قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ كَسْبِ الرَّجُلِ وَعَمَلِهِ بِيَدِهِ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: اس باب کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و قد اختلف العلماءفی افضل المکاسب قال الماوردی اصول المکاسب الزراعۃ و التجارۃ و الصنعۃ و الاشبہ بمذہب الشافعی ان اطیبہا التجارۃ قال و الارجح عندی ان اطیبہا الزراعۃ لانہ اقرب الی التوکل و تعقبہ النووی بحدیث المقدام الذی فی ہذا الباب و ان الصواب ان اطیب الکسب ما کان بعمل الید قال فان کان زراعاً فہو اطیب المکاسب لما یشتمل علیہ من کونہ عمل الید و لما فیہ من التوکل و لما فیہ من النفع العام للادمی و للدواب و لانہ لا بدفیہ فی العادۃ ان یوکل منہ بغیر عوض ( فتح )

2073. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ دَاوُدَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ لَا يَأْكُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ يَدِهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب: یعنی علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ افضل کسب کو ن سا ہے۔ ماوردی نے کہا کہ کسب کے تین اصولی طریقے ہیں۔ زراعت، تجارت، اور صنعت و حرفت۔ اور امام شافعی کے قول میں افضل کسب تجار ت ہے۔ مگر ماوردی کہتے ہیں کہ میں زراعت کو ترجیح دیتا ہوں کہ یہ توکل سے قریب ہے۔ اور نووی نے اس پر تعاقب کیا ہے اور درست بات یہ ہے کہ بہترین پاکیزہ کسب وہ ہے جس میں اپنے ہاتھ کو دخل زیادہ ہو۔ اگر زراعت کو افضل کسب مانا جائے تو بجا ہے کیوں کہ اس میں انسان زیادہ تر اپنے ہاتھ سے محنت کرتا ہے اس میں توکل بھی ہے اور انسانوں اور حیوانوں کے لیے عام نفع بھی ہے۔ اس میں بغیر کسی معاوضہ کے حاصل ہوئے غلہ سے کھایا جاتا ہے۔ اس لیے زراعت بہترین کسب ہے بشرطیکہ کامیاب زراعت ہو ورنہ عام طور پر زراعت پیشہ لوگ مقروض، تنگ دست، پریشان حال ملتے ہیں۔ اس لیے کہ نہ تو ان کے پاس زراعت کے قابل کافی زمین ہوتی ہے نہ دیگر وسائل بفراخی مہیا ہوتے ہیں، نتیجہ یہ کہ ان کا افلاس دن بدن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، ایسی حالت میں زراعت کو بہترین کسب نہیں کہا جاسکتا۔ ان حالات میں مزدوری بھی بہتر ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے تحت تین حدیثیں ذکر کی ہیں۔ جن میں سے پہلی تجارت سے متعلق ہے دوسری زراعت سے اور تیسری صنعت سے متعلق ہے۔ پہلی حدیث میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے پیشہ تجارت کا ذکر ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لما مرض ابوبکر مرضہ الذی مات فیہ قال انظروا ما زاد فی مالی منذ دخلت الامارۃ فابعثوا بہ الی الخلیفہ بعدی الخ یعنی جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو آپ نے اپنے گھر والوں کو وصیت فرمائی کہ میرے مال کی پڑتال کرنا اور خلیفہ بننے کے بعد جو کچھ بھی میرے مال میں زیادتی نظر آئے اسے بیت المال میں داخل کرنے کے لیے خلفیۃ المسلمین کے پاس بھیج دینا، چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد جائزہ لیا گیا تو ایک غلام زائد پایا گیا جو بال بچوں کو کھلایا کرتا تھا اور ایک اونٹ جس سے مرحوم کے باغ کو پانی دیا جاتا تھا۔ ہر دو کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا جن کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رحمۃ اللہ علی ابی بکر لقد اتعب من بعدہ یعنی اللہ پاک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا۔

2073.

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں: "اللہ کے نبی حضرت داود ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے تھے۔ "