Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To pass wet hands over Khuffain [two leather socks covering the ankles])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
208.
حضرت عمرو بن امیہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اپنی پگڑی اور دونوں موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ معمر نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بواسطہ ابو سلمہ عن عمرو، امام اوزاعی کی متابعت کی ہے، انھوں (عمرو) نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو (ایسا کرتے) دیکھا ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو پگڑی پر مسح کرنے کے اضافے کے پیش نظر بیان کیا ہے۔ موزوں پر مسح کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں پہلے وضو کی حالت میں پہنا گیا ہو، لیکن پگڑی پر مسح کے لیے شرط نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک تنہا پگڑی کا مسح درست نہیں، بلکہ اگر سر کے کچھ حصے پر مسح کر لیا کچھ تکمیل کے طور پر پگڑی پرکیا تو اسے درست قراردیا جائے گا۔ بصورت دیگر نہیں، لیکن جمہور کا یہ موقف محل نظر ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ سے مطلق پگڑی پر مسح کرنا بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ حدیث باب میں ہے۔ پھر عمرو بن امیہ کے علاوہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سیدنا بلال ؓ اور سیدنا ابو ذر ؓ وغیرہ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي:400/2) اس لیے راجح بات یہی ہے کہ صرف سر کا مسح سر کے بعض حصے اور پگڑی پر مسح اور صرف پگڑی پر مسح تینوں صورتیں جائز ہیں۔ بعض حضرات نے پگڑی پر مسح کے لیے کچھ شرائط ذکر کی ہیں۔ (ا) پگڑی کمال طہارت کے بعد باندھی گئی ہو، جیسا کہ موزوں میں ہے۔ (ب) پگڑی پورے سر کے لیے ساتر ہو۔ (ج) اسے عرب کے طریقے پر باندھا گیا ہو یعنی داڑھی کے نیچے سے لا کر اس کو باندھ دیا گیا ہو جونہ اٹھانے سے اٹھے اور نہ کھولنے سے کھلے، یعنی ایسی صورت ہو جیسے پاؤں پر موزے چڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارےنزدیک عمامے (پگڑی) پر مطلقاً اور مستقلاً مسح درست ہے۔ اس کے لیے جو شرائط ذکر کی گئی ہیں ان کا کتاب و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ اس روایت پر یہ اعتراض کہ حضرت اوزاعی ؒ کے علاوہ اس اضافے کوکوئی دوسرا راوی بیان نہیں کرتا، لہذا اضافہ شاذ ہے۔ اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ امام اوزاعی ؓ ثقہ راوی ہیں اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے جرابوں پر مسح کے متعلق کوئی روایت ذکر نہیں کی۔ واضح رہے کہ دین اسلام کی بنیاد سہولت اور رفع حرج پر رکھی گئی ہے۔ اس کے احکام میں اس قدر آسانی ہے کہ مزید سہولت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جرابوں پر مسح کی سہولت بھی اسی قبیل سے ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں جرابوں پر مسح کرنے کی رخصت منقول ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین عظام آئمہ دین اور محدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ حوالے کے طور پر چند احادیث حسب ذیل ہیں: (1)۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔ (مسند أحمد: 27/5) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ وضو فرمایا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ میں نے عرض کیا کہ ان پر مسح کرنا جائز ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا: کیوں نہیں! یہ بھی موزے ہیں لیکن یہ اون کے ہیں۔ (الکنی والأسماء للدولابي: 181/1) حضرت انس ؓ صحابی اور عربی الاصل ہیں وہ خف کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپالے۔ آپ کی یہ وضاحت معنی کے لحاظ سے نہایت دقیق ہے، کیونکہ ان کے نزدیک لفظ جوربین لغوی وضعی معنی کے لحاظ سے خفین کے مدلول میں داخل ہے اور خفین پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا جرابوں پر مسح میں بھی کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت انس ؓ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے۔ (محلی ابن حزم: 85/2) فقہائے کرام نے جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق بھاری بھرکم شرائط عائد کر رکھی ہیں جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں. مثلاً وہ اتنی موٹی ہوں کہ ان میں پانی جذب نہ ہوتا ہو وہ پھٹی ہوئی نہ ہوں وغیرہ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک جراب کا نام اور کام باقی ہے اس پر مسح کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے صحیح و سالم ہونے کی شرط لگانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ امام ثوری ؒ فرماتے ہیں جب تک موزے پاؤں میں رہیں ان پر مسح کرتے رہو، مہاجرین و انصار کے موزے پھٹے پرانے اور پیوند لگے ہوتے تھے۔ (محلی ابن حزم :102/2) اسی طرح جرابیں جب تک گرد و غبار سے بچاؤ اور سردی سے تحفظ کا کام دیتی ہیں ان پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ موٹی ہوں یا باریک، خواہ پھٹی پرانی ہی کیوں نہ ہوں۔ نوٹ: موزے یا جرابوں پر مسح کرنے کا آغاز پہننے کے بعد نہیں بلکہ وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
205
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
205
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
205
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
205
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موزوں پر مسح کرنے کی اہمیت کے پیش نظر مستقل عنوان قائم کیا ہے۔اہل ضلال وبدعت اورخوارج کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔روافض نے بھی اسے ناجائز قراردیاہے۔امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مجھے کم از کم سترصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق علم ہے ہ وہ مسح (على الخفَّيْن ) کو جائزسمجھتے تھے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منذر کے حوالے سے لکھاہے کہ پاؤں دھونے کی نسبت موزوں پر مسح کرنا افضل ہے۔کیونکہ خوارج وروافض مسح کوناجائز کہتےہیں اور اس میں طعن کرتے ہیں اور جس سنت کو اہل بدعت بُرا خیال کریں اس کا احیا افضل ہے۔البتہ شیخ محی الدین نے کہا ہے کہ مسح کے بجائے پاؤں دھونا افضل ہیں بشرط یہ کہ ترک مسح سنت سے بے رغبتی اور جواز مسح میں شک کے باعث نہ ہو،بعض حفاظ حدیث سے مروی ہے کہ(المسح على الخفَّين)متواتر سنت ہے۔اس کو بیان کرنے والوں کی تعداد اسی(80) سے متجاوز ہے۔عشرہ مبشرہ بھی اس سنت کو بیان کرتے ہیں۔( فتح الباری 399/1۔)
حضرت عمرو بن امیہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اپنی پگڑی اور دونوں موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ معمر نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بواسطہ ابو سلمہ عن عمرو، امام اوزاعی کی متابعت کی ہے، انھوں (عمرو) نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو (ایسا کرتے) دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو پگڑی پر مسح کرنے کے اضافے کے پیش نظر بیان کیا ہے۔ موزوں پر مسح کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں پہلے وضو کی حالت میں پہنا گیا ہو، لیکن پگڑی پر مسح کے لیے شرط نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک تنہا پگڑی کا مسح درست نہیں، بلکہ اگر سر کے کچھ حصے پر مسح کر لیا کچھ تکمیل کے طور پر پگڑی پرکیا تو اسے درست قراردیا جائے گا۔ بصورت دیگر نہیں، لیکن جمہور کا یہ موقف محل نظر ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ سے مطلق پگڑی پر مسح کرنا بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ حدیث باب میں ہے۔ پھر عمرو بن امیہ کے علاوہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سیدنا بلال ؓ اور سیدنا ابو ذر ؓ وغیرہ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي:400/2) اس لیے راجح بات یہی ہے کہ صرف سر کا مسح سر کے بعض حصے اور پگڑی پر مسح اور صرف پگڑی پر مسح تینوں صورتیں جائز ہیں۔ بعض حضرات نے پگڑی پر مسح کے لیے کچھ شرائط ذکر کی ہیں۔ (ا) پگڑی کمال طہارت کے بعد باندھی گئی ہو، جیسا کہ موزوں میں ہے۔ (ب) پگڑی پورے سر کے لیے ساتر ہو۔ (ج) اسے عرب کے طریقے پر باندھا گیا ہو یعنی داڑھی کے نیچے سے لا کر اس کو باندھ دیا گیا ہو جونہ اٹھانے سے اٹھے اور نہ کھولنے سے کھلے، یعنی ایسی صورت ہو جیسے پاؤں پر موزے چڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارےنزدیک عمامے (پگڑی) پر مطلقاً اور مستقلاً مسح درست ہے۔ اس کے لیے جو شرائط ذکر کی گئی ہیں ان کا کتاب و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ اس روایت پر یہ اعتراض کہ حضرت اوزاعی ؒ کے علاوہ اس اضافے کوکوئی دوسرا راوی بیان نہیں کرتا، لہذا اضافہ شاذ ہے۔ اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ امام اوزاعی ؓ ثقہ راوی ہیں اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے جرابوں پر مسح کے متعلق کوئی روایت ذکر نہیں کی۔ واضح رہے کہ دین اسلام کی بنیاد سہولت اور رفع حرج پر رکھی گئی ہے۔ اس کے احکام میں اس قدر آسانی ہے کہ مزید سہولت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جرابوں پر مسح کی سہولت بھی اسی قبیل سے ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں جرابوں پر مسح کرنے کی رخصت منقول ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین عظام آئمہ دین اور محدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ حوالے کے طور پر چند احادیث حسب ذیل ہیں: (1)۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔ (مسند أحمد: 27/5) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ وضو فرمایا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ میں نے عرض کیا کہ ان پر مسح کرنا جائز ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا: کیوں نہیں! یہ بھی موزے ہیں لیکن یہ اون کے ہیں۔ (الکنی والأسماء للدولابي: 181/1) حضرت انس ؓ صحابی اور عربی الاصل ہیں وہ خف کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپالے۔ آپ کی یہ وضاحت معنی کے لحاظ سے نہایت دقیق ہے، کیونکہ ان کے نزدیک لفظ جوربین لغوی وضعی معنی کے لحاظ سے خفین کے مدلول میں داخل ہے اور خفین پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا جرابوں پر مسح میں بھی کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت انس ؓ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے۔ (محلی ابن حزم: 85/2) فقہائے کرام نے جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق بھاری بھرکم شرائط عائد کر رکھی ہیں جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں. مثلاً وہ اتنی موٹی ہوں کہ ان میں پانی جذب نہ ہوتا ہو وہ پھٹی ہوئی نہ ہوں وغیرہ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک جراب کا نام اور کام باقی ہے اس پر مسح کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے صحیح و سالم ہونے کی شرط لگانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ امام ثوری ؒ فرماتے ہیں جب تک موزے پاؤں میں رہیں ان پر مسح کرتے رہو، مہاجرین و انصار کے موزے پھٹے پرانے اور پیوند لگے ہوتے تھے۔ (محلی ابن حزم :102/2) اسی طرح جرابیں جب تک گرد و غبار سے بچاؤ اور سردی سے تحفظ کا کام دیتی ہیں ان پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ موٹی ہوں یا باریک، خواہ پھٹی پرانی ہی کیوں نہ ہوں۔ نوٹ: موزے یا جرابوں پر مسح کرنے کا آغاز پہننے کے بعد نہیں بلکہ وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اوزاعی نے یحییٰ کے واسطے سے خبر دی، وہ ابوسلمہ سے، وہ جعفر بن عمرو سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو اپنے عمامے اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ اس کو روایت کیا معمر نے یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے عمرو سے متابعت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا (آپ واقعی ایسا ہی کیا کرتے تھے)
حدیث حاشیہ:
عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت علامہ شمس الحق صاحب محدث ڈیانوی قدس سرہ فرماتے ہیں: قُلْتُ أَحَادِيثُ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ أَخْرَجَهَا البخارى ومسلم والترمذي وأحمد والنسائي وبن مَاجَهْ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ مِنْ طُرُقٍ قَوِيَّةٍ مُتَّصِلَةِ الْأَسَانِيدِ وَذَهَبَ إِلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنَ السَّلَفِ كَمَا عَرَفْتَ وَقَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الرَّأْسِ فَقَطْ وَعَلَى الْعِمَامَةِ فَقَطْ وَعَلَى الرَّأْسِ وَالْعِمَامَةِ مَعًا وَالْكُلُّ صَحِيحٌ ثَابِتٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَوْجُودٌ فِي كُتُبِ الْأَئِمَّةِ الصِّحَاحِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبَيِّنٌ عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الخ۔(عون المعبود:56/1)یعنی عمامہ پر مسح کی احادیث بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، نسائی، ابن ماجہ اور بھی بہت سے اماموں نے پختہ متصل اسانید کے ساتھ روایت کی ہیں اور سلف کی ایک جماعت نے اسے تسلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے خالی سر پر مسح فرمایا اور خالی عمامہ پر بھی مسح فرمایا اور سر اور عمامہ ہردو پر اکٹھے بھی مسح فرمایا۔ یہ تینوں صورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہیں اور ائمہ کرام کی کتب صحاح میں یہ موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے فرمان: ﴿وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ﴾(المائدة:6) کے بیان فرمانے والے ہیں۔ (لہٰذا آپ کا یہ عمل وحی خفی کے تحت ہے) عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: من لم یطهرہ المسح علی العمامة فلاطهرہ اللہ، رواہ الخلال بإسنادہ یعنی جس شخص کو عمامہ پر مسح نے پاک نہ کیا پس خدا بھی اس کو پاک نہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ نے بہت سی تاویلات کی ہیں۔ بعض نے کہا کہ عمامہ پر مسح کرنا بدعت ہے۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے پیشانی پر مسح کرکے پگڑی کو درست کیاہوگا۔ جسے راوی نے پگڑی کا مسح گمان کرلیا۔ بعض نے کہا کہ چوتھائی سر کا مسح جو فرض تھا اسے کرنے کے بعد آپ نے سنت کی تکمیل کے لیے بجائے مسح بقیہ سر کے پگڑی پر مسح کرلیا۔ بعض نے کہا کہ پگڑی پر آپ نے مسح کیا تھا۔ مگروہ بعد میں منسوخ ہوگیا۔ حضرت العلام مولانا محمد انورشاہ صاحب دیوبندی مرحوم: مناسب ہوگا کہ ان جملہ احتمالات فاسدہ کے جواب میں ہم سرتاج علما ءدیوبند حضرت مولانا انورشاہ صاحب ؒ کا بیان نقل کردیں۔ جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ عمامہ پر مسح کرنے کا مسئلہ حق وثابت ہے یا نہیں۔ حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔ ’’ میرے نزدیک واضح وحق بات یہ ہے کہ مسح عمامہ تواحادیث سے ثابت ہے اور اسی لیے ائمہ ثلاثہ نے بھی (جو صرف مسح عمامہ کو ادائے فرض کے لیے کافی نہیں سمجھتے) اس امر کو تسلیم کرلیا ہے اور استحباب یا استیعاب کے طور پر اس کو مشروع بھی مان لیا ہے۔ پس اگر اس کی کچھ اصل نہ ہوتی تو اس کو کیسے اختیار کرسکتے تھے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف الفاظ پر جمود کرکے دین بناتے ہیں۔ بلکہ اموردین کی تعیین کے لیے میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ امت کا توارث اور ائمہ کا مسلک مختار معلوم کیاجائے۔ کیونکہ وہ دین کے ہادی ورہنما اور اس کے مینار وستون تھے اور ان ہی کے واسطے سے ہم کو دین پہنچا ہے۔ ان پر اس کے بارے میں پورا اعتماد کرنا پڑے گا اور اس کے بارے میں کسی قسم کی بھی بدگمانی مناسب نہیں ہے۔ غرض مسح عمامہ کو جس حد تک ثابت ہوا ہمیں دین کا جزو ماننا ہے، اسی لیے اس کو بدعت کہنے کی جرات بھی ہم نہیں کرسکتے، جو بعض کتابوں میں لکھ دیا گیا ہے۔ ‘‘ (أنوارالباري:192/5) برادران احناف جو اہل حدیث سے خواہ مخواہ اس قسم کے فروعی مسائل میں جھگڑتے رہتے ہیں، وہ اگر حضرت مولانا مرحوم کے اس بیان کو نظر انصاف سے ملاحظہ کریں گے توان پر واضح ہوجائے گا کہ مسلک اہل حدیث کے فروعی واصولی مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو باآسانی متروک العمل اور قطعی غیرمقبول قرار دے دیاجائے۔ مسلک اہل حدیث کی بنیاد خالص کتاب وسنت پر ہے۔ جس میں قیل وقال و آرائے رجال سے کچھ گنجائش نہیں ہے۔ جس کا مختصر تعارف یہ ہے:
ما اہل حدیثیم دغا رانہ شناسیم صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ وفن نیست
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ja'far bin 'Amr (RA): My father said, "I saw the Prophet (ﷺ) passing wet hands over his turban and Khuffs (leather socks)."