تشریح:
(1)دیگر روایات سے پتہ چلتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اشیائے ضرورت کی خرید کا معاملہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا،البتہ آپ نے امت کو تعلیم دینے کے لیے بعض اوقات خود بھی خریداری کی ہے۔(2) اس عنوان کامقصد یہ بیان کرنا ہے کہ بنفس نفیس خرید وفروخت کرنا مروت کے خلاف نہیں۔بہرحال تواضع اور انکسار کے طور پر یہ امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی سرانجام دیتے تھے، چنانچہ آپ نے بذات خود ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی۔ کوئی امام ہویا بادشاہ اس کا درجہ نبی سے بڑا نہیں ہے۔اپنا سودا سلف خریدنا اور خود ہی اسے اٹھا کر لے جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس لیے بہتر ہے کہ انسان اپنا کام خود کرے۔ ایسا کرنے سے اس کی زندگی بہت پرسکون ہوگی۔( فتح الباری:4/404)