باب:اس بارے میں کہ بکری کا گوشت اورستو کھا کرنیا وضو نہ کرنا ثابت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Not repeating ablution after eating mutton and As-Sawiq)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
”اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے گوشت کھایا اور نیا وضو نہیں کیا“۔
210.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا، پھر نماز پڑھی اوروضو نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ قاضی اسماعیل نے وضاحت کی ہے کہ گوشت کھانے کا یہ واقعہ حضرت ضباعہ بنت زبیر ؓ کے گھر پیش آیا جو رسول اللہ ﷺ کی چچا زاد ہمیشرہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے حضرت میمونہ ؓ کے گھر گوشت تناول فرمایا ہو جس کا ذکر آئندہ حدیث (210) میں آرہا ہے (فتح الباري:406/1) امام نسائی ؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق آپ کو نماز کی اطلاع دینے والے حضرت بلال ؓ تھے (سنن النسائي، الطهارة، حدیث :182) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کے مقصود کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ جب گوشت کے استعمال سے وضو ضروری نہیں تو اس سے کم درجے کی چیزیں جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی (جیسے ستو وغیرہ) ان کے کھانے سے بدرجہ اولیٰ وضو نہیں ہو گا۔ بکری کے گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ شاید آپ اس سے اونٹ کے گوشت کا استثنا کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس میں چکناہٹ اور ایک قسم کی ناگوار سی بو زیادہ ہوتی ہے۔ غالباً اسی بنا پر اس میں کچے اور پختہ کی تمیز نہیں یعنی مطبوخ اور غیر مطبوخ دونوں برا بر ہیں۔ امام احمد ؒ نے اونٹ کا گوشت استعمال کرنے کے بعد وضو کو ضروری قراردیا ہے اور محدثین میں سے امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ( فتح الباري:405/1) امام بخاری ؒ کا لحم الشاۃ کا تذکرہ کرنے کا یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ آپ جگہ جگہ عنوانات میں ایسی قید لگا دیتے ہیں جس کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن حدیث میں اس کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے قضیہ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے بسا اوقات وہ ایسا کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ 3۔ ابتدائے اسلام میں آگ کے ذریعے سے تیار کی گئی چیزوں کے استعمال کے بعد وضو کرنے کا حکم تھا، جیسا کہ حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت ابو ہریرہ ؓ اور صدیقہ کائنات ؓ سے مروی احادیث سے پتہ چلتا ہے ان احادیث کا ذکر متعدد کتب حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:787۔788۔789 (352)) حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری حکم یہ تھا کہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 192) عام محدثین حدیث جابر کے پیش نظر آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کے حکم کو منسوخ قراردیتے ہیں۔ لیکن امام ابو داود ؒ نے حدیث جابر سے نسخ کی متعارف صورت کو مرجوح قراردیا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ایک حکم وجوب وضو کا دیا ہواور پھر دوسرا حکم ترک وضو کا ارشاد فرمایا ہو، بلکہ ان کے نزدیک دو واقعات ایک ہی دن میں پیش آئے اور نماز ظہر اور نماز عصر میں دو طرح کا عمل مروی ہوا ہے، انھوں نے خاص طور پر پہلے مفصل حدیث ذکر فرمائی اور اس کے بعد مجمل حدیث کا تذکرہ کیا، پھر فرمایا کہ یہ آخری حدیث پہلی روایت کا اختصار ہے، مفصل حدیث جابر اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روٹی اور گوشت پیش کیا گیا فراغت کے بعد آپ نے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی پھر آپ نے بقیہ کھانا طلب کیا، اسے تناول کرنے کے بعد آپ نے نماز عصر ادا کی اور وضو نہ فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث:191) ابن حزم ؒ نے امام ابو داؤد ؒ کے موقف کو ’’قول بالظن ‘‘ قراردیا ہے، پھر '' ظن أکذب الحدیث" کہا ہے، چونکہ اکابر محدثین اس مسئلے کے متعلق متعارف نسخ اور عدم نسخ کی بابت دو مستقل رائے رکھتے ہیں، نسخ کی طرف امام ترمذی ؒ کا رجحان ہے تودوسری طرف امام ابو داود ؒ ہیں۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کر کے اپنے نزدیک راجح مسلک کی نشاندہی کر دی۔ پھر محدثانہ اصول کے مطابق خلفائے ثلاثہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مختلف روایات منقول ہوں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ترجیح دی جاتی ہے اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کے متعلق مختلف ہوں تو خلفائے راشدین کے عمل کو دیکھا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان کے بعد خلفائے ثلاثہ کا عمل پیش کیا ہے، اس میں یہی حکمت پنہاں ہے۔ (فتح الباري:407/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
207
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
207
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
207
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
207
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان کردہ یہ معلق مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ (1/88)اور دیگرکئی کتابوں میں موصولاً مروی ہے۔
”اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے گوشت کھایا اور نیا وضو نہیں کیا“۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا، پھر نماز پڑھی اوروضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ قاضی اسماعیل نے وضاحت کی ہے کہ گوشت کھانے کا یہ واقعہ حضرت ضباعہ بنت زبیر ؓ کے گھر پیش آیا جو رسول اللہ ﷺ کی چچا زاد ہمیشرہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے حضرت میمونہ ؓ کے گھر گوشت تناول فرمایا ہو جس کا ذکر آئندہ حدیث (210) میں آرہا ہے (فتح الباري:406/1) امام نسائی ؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق آپ کو نماز کی اطلاع دینے والے حضرت بلال ؓ تھے (سنن النسائي، الطهارة، حدیث :182) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کے مقصود کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ جب گوشت کے استعمال سے وضو ضروری نہیں تو اس سے کم درجے کی چیزیں جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی (جیسے ستو وغیرہ) ان کے کھانے سے بدرجہ اولیٰ وضو نہیں ہو گا۔ بکری کے گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ شاید آپ اس سے اونٹ کے گوشت کا استثنا کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس میں چکناہٹ اور ایک قسم کی ناگوار سی بو زیادہ ہوتی ہے۔ غالباً اسی بنا پر اس میں کچے اور پختہ کی تمیز نہیں یعنی مطبوخ اور غیر مطبوخ دونوں برا بر ہیں۔ امام احمد ؒ نے اونٹ کا گوشت استعمال کرنے کے بعد وضو کو ضروری قراردیا ہے اور محدثین میں سے امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ( فتح الباري:405/1) امام بخاری ؒ کا لحم الشاۃ کا تذکرہ کرنے کا یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ آپ جگہ جگہ عنوانات میں ایسی قید لگا دیتے ہیں جس کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن حدیث میں اس کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے قضیہ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے بسا اوقات وہ ایسا کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ 3۔ ابتدائے اسلام میں آگ کے ذریعے سے تیار کی گئی چیزوں کے استعمال کے بعد وضو کرنے کا حکم تھا، جیسا کہ حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت ابو ہریرہ ؓ اور صدیقہ کائنات ؓ سے مروی احادیث سے پتہ چلتا ہے ان احادیث کا ذکر متعدد کتب حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:787۔788۔789 (352)) حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری حکم یہ تھا کہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 192) عام محدثین حدیث جابر کے پیش نظر آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کے حکم کو منسوخ قراردیتے ہیں۔ لیکن امام ابو داود ؒ نے حدیث جابر سے نسخ کی متعارف صورت کو مرجوح قراردیا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ایک حکم وجوب وضو کا دیا ہواور پھر دوسرا حکم ترک وضو کا ارشاد فرمایا ہو، بلکہ ان کے نزدیک دو واقعات ایک ہی دن میں پیش آئے اور نماز ظہر اور نماز عصر میں دو طرح کا عمل مروی ہوا ہے، انھوں نے خاص طور پر پہلے مفصل حدیث ذکر فرمائی اور اس کے بعد مجمل حدیث کا تذکرہ کیا، پھر فرمایا کہ یہ آخری حدیث پہلی روایت کا اختصار ہے، مفصل حدیث جابر اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روٹی اور گوشت پیش کیا گیا فراغت کے بعد آپ نے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی پھر آپ نے بقیہ کھانا طلب کیا، اسے تناول کرنے کے بعد آپ نے نماز عصر ادا کی اور وضو نہ فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث:191) ابن حزم ؒ نے امام ابو داؤد ؒ کے موقف کو ’’قول بالظن ‘‘ قراردیا ہے، پھر '' ظن أکذب الحدیث" کہا ہے، چونکہ اکابر محدثین اس مسئلے کے متعلق متعارف نسخ اور عدم نسخ کی بابت دو مستقل رائے رکھتے ہیں، نسخ کی طرف امام ترمذی ؒ کا رجحان ہے تودوسری طرف امام ابو داود ؒ ہیں۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کر کے اپنے نزدیک راجح مسلک کی نشاندہی کر دی۔ پھر محدثانہ اصول کے مطابق خلفائے ثلاثہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مختلف روایات منقول ہوں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ترجیح دی جاتی ہے اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کے متعلق مختلف ہوں تو خلفائے راشدین کے عمل کو دیکھا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان کے بعد خلفائے ثلاثہ کا عمل پیش کیا ہے، اس میں یہی حکمت پنہاں ہے۔ (فتح الباري:407/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے زید بن اسلم سے خبر دی، وہ عطاء بن یسار سے، وہ عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے بکری کے گوشت کا شانہ کھایا۔ پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) ate a piece of cooked mutton from the shoulder region and prayed without repeating ablution.