تشریح:
1۔ اس حدیث میں نہ ستو وغیرہ کا ذکر ہے اور نہ کلی وغیرہ کرنے کا بیان ہے۔ شراح بخاری نے اس کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں: (1)۔ اس حدیث کا تعلق باب سابق سے ہے، لیکن باب در باب کے اصول پر اس سے پہلے ذکر کردہ حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کر کے یہ بتایا کہ آگ سے تیار کردہ چیزوں کے استعمال پر منہ کو صاف کرنے کے لیے صرف کلی کافی ہے۔ (2)۔ حدیث میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر یہاں کاتب کی غلطی سے بے محل ہو گیا ہے، کیونکہ فربری کے نسخے میں یہ حدیث باب سابق کے تحت ذکر ہوئی ہے۔ علامہ عینی نے اس کو راجح قراردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر کتاب نقل کرنے کے لیے خوشخط کاتب کا انتخاب کیا جا تا ہے اور اکثر عمدہ خط والے کاتب جاہل ہوتے ہیں اور جہلاء سے اس قسم کی غلطی ہو سکتی ہے۔ (عمدة القاري:582/2) (3)۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترک مضمضہ والی حدیث میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ذکر کر کے اس کے غیر واجب ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، یعنی کھائی ہوئی چیز چکناہٹ والی تھی اس سے کلی کرنا چاہیے تھی، لیکن بیان جواز کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے ترک کردیا۔ (فتح الباري:408/1) اس میں شک نہیں کہ کلی کو منہ کی صفائی کے لیے رکھا گیا ہے، ستو میں اجزاء کے انتشار اور گوشت میں چکناہٹ کے اثرات دور کرنے کے لیے کلی کی جاتی ہے۔ اگر منہ کے لعاب کے ساتھ وہ اجزاء تحلیل ہو جائیں اسی طرح کچھ دیر گزرنے کے بعد گوشت کی چکناہٹ بھی ختم ہو جائے تو کلی کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، البتہ اگر ان چیزوں کے استعمال کے فوراً بعد نماز ادا کرنا ہو تو کلی کرنی ہوگی، کیونکہ مقصد منہ کی صفائی ہے تاکہ قراءت میں تکلیف نہ ہو۔ اگر نماز کے وقت منہ کسی وجہ سے خود بخود صاف ہوجائے تو کلی کی ضرورت نہیں۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث میمونہ کو: ''مضمضة من السویق" کے تحت لائے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک روایت میں اختصار ہے اگرچہ اس میں کلی کا ذکر نہیں لیکن کلی کرنا مراد میں داخل ہے، کیونکہ پہلے باب میں گوشت کے استعمال کے بعد وضو لازم نہ ہونے سے ستو کے بعد بھی وضو لازم نہ ہونے پر استدلال کیا تھا اور یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب ستو کے استعمال کے بعد کلی کی جاتی ہے حالانکہ اس میں چکناہٹ نہیں ہوتی تو گوشت یا دوسری چکناہٹ والی چیزوں کے استعمال کے بعد کلی کرنا بالاولیٰ درست ہو گا۔