Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The weaver)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2111.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کرآئی۔ انھوں نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟کہا گیا : ہاں وہ بڑی چادر جس کے کنارے بنے ہوئے ہوں۔ اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھوں سے بنا ہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ نبی ﷺ نے اسے لے لیا۔ آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ نے اسے تہبند کےطورپر استعمال کیا اور ہمارے پاس تشریف لائے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ یہ چادرمجھے عنایت کردیں۔ آپ نے فرمایا: "ہاں، لے لو۔ "چنانچہ نبی ﷺ مجلس میں بیٹھے، پھر واپس تشریف لے گئے اور چادر کو لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تونے اچھا نہیں کیا۔ آپ سے چادر کا سوال کیا حالانکہ تجھے علم تھا کہ آپ کسی سائل کو خالی واپس نہیں کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں نے آپ سے اس لیے چادر کا سوال کیا تھا کہ جس دن میں مروں وہ میراکفن بنے۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چادراس کا کفن بنی۔
تشریح:
(1) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت کپڑا بننے میں ماہر تھی بلکہ اس پر کڑھائی کا کام بھی کرتی تھی کیونکہ اس نے بہترین حاشیہ دارچادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اسے بخوشی قبول فرمایا۔(2)امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کپڑا بننے کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں اس میں مہارت رکھتی تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا،جس سے اس کے پیشے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔(3) واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر بطور تبرک اپنے کفن کے لیے مانگ لی تو آپ نے انھیں عنایت کردی، حالانکہ آپ خود اس کے ضرورت مند تھے۔راوی کے بیان کے مطابق وہی چادر مانگنے والے صحابی کے لیے بطور کفن استعمال کی گئی۔رضي الله عنهم اجمعين.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2032
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2093
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2093
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2093
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کرآئی۔ انھوں نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟کہا گیا : ہاں وہ بڑی چادر جس کے کنارے بنے ہوئے ہوں۔ اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھوں سے بنا ہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ نبی ﷺ نے اسے لے لیا۔ آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ نے اسے تہبند کےطورپر استعمال کیا اور ہمارے پاس تشریف لائے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ یہ چادرمجھے عنایت کردیں۔ آپ نے فرمایا: "ہاں، لے لو۔ "چنانچہ نبی ﷺ مجلس میں بیٹھے، پھر واپس تشریف لے گئے اور چادر کو لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تونے اچھا نہیں کیا۔ آپ سے چادر کا سوال کیا حالانکہ تجھے علم تھا کہ آپ کسی سائل کو خالی واپس نہیں کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں نے آپ سے اس لیے چادر کا سوال کیا تھا کہ جس دن میں مروں وہ میراکفن بنے۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چادراس کا کفن بنی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت کپڑا بننے میں ماہر تھی بلکہ اس پر کڑھائی کا کام بھی کرتی تھی کیونکہ اس نے بہترین حاشیہ دارچادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اسے بخوشی قبول فرمایا۔(2)امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کپڑا بننے کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں اس میں مہارت رکھتی تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا،جس سے اس کے پیشے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔(3) واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر بطور تبرک اپنے کفن کے لیے مانگ لی تو آپ نے انھیں عنایت کردی، حالانکہ آپ خود اس کے ضرورت مند تھے۔راوی کے بیان کے مطابق وہی چادر مانگنے والے صحابی کے لیے بطور کفن استعمال کی گئی۔رضي الله عنهم اجمعين.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے کہا کہ میں نے سہل بن سعد ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ایک عورت ” بردہ “ لے کر آئی۔ سہل ؓ نے پوچھا، تمہیں معلوم بھی ہے کہ بردہ کسے کہتے ہیں۔ کہا گیا جی ہاں ! بردہ حاشیہ دار چادر کو کہتے ہیں۔ تو اس عورت نے کہا، یا رسول اللہ ! میں نے خاص آپ کو پہنانے کے لیے یہ چادر اپنے ہاتھ سے بنی ہے، آپ ﷺ نے اسے لے لیا۔ آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ پھر آپ باہر تشریف لائے تو آپ اسی چادر کو بطور ازار کے پہنے ہوئے تھے، حاضرین میں سے ایک صاحب بولے، یا رسول اللہ ! یہ تو مجھے دے دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا لے لینا۔ اس کے بعد آپ ﷺ مجلس میں تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے پھر واپس تشریف لے گئے پھر ازار کو تہ کرکے ان صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ لوگوں نے کہا تم نے آنحضرت ﷺ سے یہ ازار مانگ کر اچھا نہیں کیا کیوں کہ تمہیں معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کے سوال کو رد نہیں کیا کرتے ہیں۔ اس پر ان صحابی نے کہا کہ واللہ ! میں نے تو صرف اس لیے یہ چادر مانگی ہے کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن بنے۔ سہل ؓ نے فرمایا کہ وہ چادر ہی ان کا کفن بنی۔
حدیث حاشیہ:
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کے ہاں کرگھا تھا اور وہ کپڑا بنانے کا کام کرنے میں ماہر تھی۔ جو بہترین حاشیہ دار چادر بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے لائی۔ آپ نے اسے بخوشی قبول کر لیا، مگر ایک صحابی ( عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) تھے جنہوں نے اسے آپ کے جسم پر زیب تن دیکھ کر بطور تبرک اپنے کفن کے لیے اسے آپ سے مانگ لیا۔ اور آپ نے ان کو یہ دے دی، اور ان کے کفن ہی میں وہ استعمال کی گئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں نوربافی کا فن مروج تھا اور اس میں عورتیں تک مہارت رکھتی تھیں، اور اس پیشہ کو کوئی بھی معیوب نہیں جانتا تھا۔ یہی ثابت کرنا حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA): I heard Sahl bin Sad (RA) saying, "A woman brought a Burda (i.e. a square piece of cloth having edging). I asked, 'Do you know what a Burda is?' They replied in the affirmative and said, "It is a cloth sheet with woven margins." Sahl went on, "She addressed the Prophet (ﷺ) and said, 'I have woven it with my hands for you to wear.' The Prophet (ﷺ) took it as he was in need of it, and came to us wearing it as a waist sheet. One of us said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Give it to me to wear.' The Prophet (ﷺ) agreed to give it to him. The Prophet (ﷺ) sat with the people for a while and then returned (home), wrapped that waist sheet and sent it to him. The people said to that man, 'You haven't done well by asking him for it when you know that he never turns down anybody's request.' The man replied, 'By Allah, I have not asked him for it except to use it as my shroud when I die." Sahl added; "Later it (i.e. that sheet) was his shroud." ________