Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Purchasing of camel suffering from disease)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2117.
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں نواس نامی ایک شخص تھا، اس کے پاس ایسے اونٹ تھے جن کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے اور اس کے شریک سے وہ اونٹ خرید لائے، پھر اس کے پاس وہ شریک آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے وہ اونٹ فروخت کردیے ہیں۔ اس نے کہا: کس کے ہاتھ فروخت کیے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ کو فروخت کیے ہیں جن کی شکل و صورت کچھ ایسی ایسی تھی۔ اس نے کہا: تیرے لیےخرابی ہو، اللہ کی قسم!وہ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: میرے شریک نے آپ کے ہاتھ پیاس والے اونٹ فروخت کر دیے ہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہانک کر لےجاؤ۔ جب وہ ہانکنے لگا تو فرمایا: انھیں چھوڑدو، ہم رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے خوش ہیں کہ" ایک کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا۔ "سفیان نے حضرت عمرو بن دینار سے سنا ہے۔
تشریح:
(1) بیوپاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خریداروں کو اپنے جانوروں کے عیوب بتادیں، اس سلسلے میں ہر گز دھوکا بازی نہ کی جائے،نیز عیب دار چیز کی خریدوفروخت کا بھی ثبوت ملتا ہے بشرطیکہ بیچنے والا اس کی وضاحت کر دے اور لینے والا اسے قبول کرلے۔اگر وضاحت معاملہ طے کرنے کے بعد کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے اسے رکھ لے یا واپس کردے۔(2) اگر کوئی سودا گر بھول چوک سے عیب دار مال فروخت کردے تو ضروری ہے کہ اس کے بعد گاہک کے پاس جاکر اس کی معذرت کرے اور اس کی مرضی پر معاملہ چھوڑ دے۔یہ اس کی شرافت ودیانت کی دلیل ہوگی۔گاہک کا درگزر کرنا،اسے معاف کر دینا اور معاملہ برقرار رکھنا اس کی فراخ دلی کی علامت ہے۔ایسا کرنا باعث خیروبرکت ہوسکتا ہے۔(3) کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا،اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الطب میں پیش کریں گے۔باذن الله تعاليٰ.واضح رہے کہ مسند حمیدی میں سفیان نے تحدیث کی تصریح کی ہے۔( مسند الحمیدی:2/42،دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،وفتح الباری:4/407)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2038
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2099
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2099
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2099
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع نہیں ہے بلکہ اہیم یا ہیما کی جمع ہے۔ مصابیح والے نے یوں جواب دیا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے بازل کی جمع بزل آتی ہے۔ پھر ہا کا ضمہ بوجہ یا کے کسرہ سے بدل گیا۔ جیسے بیض میں جو ابیض کی جمع ہے۔ ہیام ایک بیماری ہے جو اونٹ کو ہوجاتی ہے۔ وہ پانی پیتا ہی چلا جاتا ہے مگر سیراب نہیں ہوتا اور اسی طرح مر جاتا ہے قرآن مجید میں فشٰربون شرب الہیم ( الواقعہ : 55 ) میں یہی بیان ہے کہ دوزخی، ایسے پیاسے اونٹ کی طرح جو سیراب ہی نہیں ہوگا کھولتا ہوا پانی پیتے جائیں گے مگر سیراب نہ ہوں گے بلکہ شدت پیاس میں اور اضافہ ہوگا۔ یہی لفظ ہیم یہاں حدیث میں مذکور ہوا۔ حدیث لاعدوی میں امراض کے بالذات متعدی ہونے کی نفی ہے۔ فافہم و تدبر صدق رسول اللہ ﷺ ۔
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں نواس نامی ایک شخص تھا، اس کے پاس ایسے اونٹ تھے جن کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے اور اس کے شریک سے وہ اونٹ خرید لائے، پھر اس کے پاس وہ شریک آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے وہ اونٹ فروخت کردیے ہیں۔ اس نے کہا: کس کے ہاتھ فروخت کیے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ کو فروخت کیے ہیں جن کی شکل و صورت کچھ ایسی ایسی تھی۔ اس نے کہا: تیرے لیےخرابی ہو، اللہ کی قسم!وہ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: میرے شریک نے آپ کے ہاتھ پیاس والے اونٹ فروخت کر دیے ہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہانک کر لےجاؤ۔ جب وہ ہانکنے لگا تو فرمایا: انھیں چھوڑدو، ہم رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے خوش ہیں کہ" ایک کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا۔ "سفیان نے حضرت عمرو بن دینار سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بیوپاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خریداروں کو اپنے جانوروں کے عیوب بتادیں، اس سلسلے میں ہر گز دھوکا بازی نہ کی جائے،نیز عیب دار چیز کی خریدوفروخت کا بھی ثبوت ملتا ہے بشرطیکہ بیچنے والا اس کی وضاحت کر دے اور لینے والا اسے قبول کرلے۔اگر وضاحت معاملہ طے کرنے کے بعد کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے اسے رکھ لے یا واپس کردے۔(2) اگر کوئی سودا گر بھول چوک سے عیب دار مال فروخت کردے تو ضروری ہے کہ اس کے بعد گاہک کے پاس جاکر اس کی معذرت کرے اور اس کی مرضی پر معاملہ چھوڑ دے۔یہ اس کی شرافت ودیانت کی دلیل ہوگی۔گاہک کا درگزر کرنا،اسے معاف کر دینا اور معاملہ برقرار رکھنا اس کی فراخ دلی کی علامت ہے۔ایسا کرنا باعث خیروبرکت ہوسکتا ہے۔(3) کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا،اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الطب میں پیش کریں گے۔باذن الله تعاليٰ.واضح رہے کہ مسند حمیدی میں سفیان نے تحدیث کی تصریح کی ہے۔( مسند الحمیدی:2/42،دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،وفتح الباری:4/407)
ترجمۃ الباب:
حدود واعتدال سے تجاوز کرنے والے کو"هائم"کہا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں ( مکہ میں ) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس ! وہ تو عبداللہ بن عمر ؓ تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی ہیں ( آپ نے فرمایا تھا کہ ) ” لاعدوی “ ( یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے ) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔ دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔ اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔ اور اس سودے کو فسخ کردے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔ اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA): Here (i.e. in Makkah) there was a man called Nawwas and he had camels suffering from the disease of excessive and unquenchable thirst. Ibn 'Umar (RA) went to the partner of Nawwas and bought those camels. The man returned to Nawwas and told him that he had sold those camels. Nawwas asked him, "To whom have you sold them?" He replied, "To such and such Sheikh." Nawwas said, "Woe to you; By Allah, that Sheikh was Ibn 'Umar (RA)." Nawwas then went to Ibn 'Umar (RA) and said to him, "My partner sold you camels suffering from the disease of excessive thirst and he had not known you." Ibn 'Umar (RA) told him to take them back. When Nawwas went to take them, Ibn 'Umar (RA) said to him, "Leave them there as I am happy with the decision of Allah's Apostle (ﷺ) that there is no oppression . "