تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، بادشاہ اور معزز لوگوں کا بازار جانا مذموم نہیں۔ (2) اس سے بازاری لوگوں کی مذمت بھی ثابت ہوتی ہے جو بازار میں اپنی چیز کی جھوٹی تعریف اور دوسروں کی بلاوجہ برائی کرتے ہیں، جھوٹی قسمیں اٹھاتے، آوازیں بلند کرتے اور شور مچاتے ہیں۔غالباً انھی مذموم اوصاف کی بنا پر بازاروں کو زمین کا بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔(3) ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی راہ دکھائیں گے حتی کے وہ اقرار شہادتین سے اسلام میں داخل ہوجائیں گے،الغرض رسول اللہ ﷺ نے واقعی ملتِ ابراہیم کو پاک صاف کرکے اصل صورت میں پیش فرمایا۔(4) عبدالعزیز بن ابو سلمہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4838) (5) سعید بن ابو ہلال نے صحابی کی تعیین میں عبدالعزیز اور فلیح کی مخالفت کی ہے کیونکہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے بیان کیا ہے جبکہ سعید نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے۔ ممکن ہے کہ عطاء بن یسار نے حضرت عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن سلام ؓ دونوں سے اس روایت کو حاصل کیا ہو۔ (فتح الباري:434/4)