قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابٌ:إِذَا اشْتَرَى شَيْئًا، فَوَهَبَ مِنْ سَاعَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا، وَلَمْ يُنْكِرِ البَائِعُ عَلَى المُشْتَرِي، أَوِ اشْتَرَى عَبْدًا فَأَعْتَقَهُ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: وَقَالَ طَاوُسٌ: فِيمَنْ يَشْتَرِي السِّلْعَةَ عَلَى الرِّضَا، ثُمَّ بَاعَهَا: وَجَبَتْ لَهُ وَالرِّبْحُ لَهُ

2134 .   قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بِعْتُ مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مَالًا بِالْوَادِي بِمَالٍ لَهُ بِخَيْبَرَ فَلَمَّا تَبَايَعْنَا رَجَعْتُ عَلَى عَقِبِي حَتَّى خَرَجْتُ مِنْ بَيْتِهِ خَشْيَةَ أَنْ يُرَادَّنِي الْبَيْعَ وَكَانَتْ السُّنَّةُ أَنَّ الْمُتَبَايِعَيْنِ بِالْخِيَارِ حَتَّى يَتَفَرَّقَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَلَمَّا وَجَبَ بَيْعِي وَبَيْعُهُ رَأَيْتُ أَنِّي قَدْ غَبَنْتُهُ بِأَنِّي سُقْتُهُ إِلَى أَرْضِ ثَمُودَ بِثَلَاثِ لَيَالٍ وَسَاقَنِي إِلَى الْمَدِينَةِ بِثَلَاثِ لَيَالٍ

صحیح بخاری:

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان

 

تمہید کتاب  (

باب:اگر ایک شخص نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی کسی اور کو للہ دے دی پھر بیچنے والے نے خریدنے والے کو اس پر نہیں ٹوکا، یا کوئی غلام خرید کر ( بیچنے والے سے جدائی سے پہلے ہی اسے ) آزاد کر دیا

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

۔ طاؤس نے اس شخص کے متعلق کہا، جو ( فریق ثانی کی ) رضا مندی کے بعد کوئی سامان اس سے خریدے اور پھر اسے بیچ دے اور بائع انکار نہ کرے تو یہ بیع لازم ہو جائے گی۔ اور اس کا نفع بھی خریدار ہی کا ہوگا۔

2134.   حضرت عبد اللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے امیر المومنین حضرت عثمان  ؓ کے ہاتھ وادی کے اندرجو میری زمین تھی ان کے خیبر والے مال کے عوض فروخت کردی۔ جب ہم بیع کر چکے تو میں الٹے پاؤں واپس چلا حتی کہ ان کے مکان سے باہر نکل گیا، مبادا وہ بیع واپس کردیں کیونکہ طریقہ مروجہ یہ تھا کہ بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہوتا حتی کہ وہ جداہو جائیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  ؓ نے فرمایا: جب میری اور ان کی بیع پوری ہوگئی تو میرے خیال کے مطابق میں نے ان سے غبن کیا، اس لیے کہ میں نے انھیں ارض ثمود کی طرف تین راتوں کا سفر دور دھکیل دیا اور انھوں نے مجھے مدینہ طیبہ کی طرف تین دن کی مسافت قریب کردیا۔