تشریح:
ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے بدلے خریدوفروخت کرنا "صرف" کہلاتا ہے۔ بیع صرف میں قبضہ اور دست بدست ہونا شرط ہے۔اگر دونوں عوض ایک جنس ہوں تو کسی بھی طرف زیادہ یاکم لینا حرام ہے،نیز یہ سودا نقد بنقد ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر جنس مختلف ہوتو زیادتی اور کمی تو جائز ہے لیکن یہ خریدوفروخت دست بدست ہونی چاہیے۔دراصل حضرت مالک بن اوس ؓ کے پاس سودینار تھے وہ ان کے بدلے درہم لینا چاہتے تھے۔ان کا حضرت طلحہ سے سودا طے ہوا لیکن حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا اس وقت میرے پاس درہم موجود نہیں ہیں،میرا خزانچی غابہ سے آئے گا تو آپ کو درہم فراہم کردیے جائیں گے۔حضرت عمر ؓ یہ باتیں سن رہے تھے، انھوں نے فرمایا: تم اس وقت تک الگ الگ نہ ہو جب تک اس سے دراہم وصول نہ کرلو کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے مگر جب دست بدست ہوتو جائز ہے۔‘‘ والله أعلم.