Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
56. Chapter: One of the major sins is not to protect oneself (one's clothes and body) from one's urine (i.e., from being soiled with it)
باب: اس بارے میں کہ پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: One of the major sins is not to protect oneself (one's clothes and body) from one's urine (i.e., from being soiled with it))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
219.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینے یا مکے کے کسی باغ سے گزرے تو وہاں دو آدمیوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے لیکن یہ عذاب کسی بڑی بات پر نہیں دیا جا رہا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ ہاں (بڑی ہی ہے) ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کی عادت میں مبتلا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ایک تر شاخ منگوائی، اس کے دو ٹکڑے کر کے ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ آپ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: ’’ امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں، ان دونوں پر عذاب ہلکا کر دیا جائے گا۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ عنوان قائم کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ پیشاب ناقض وضو ہونے کے ساتھ ساتھ ناپاک اور نجس بھی ہے، لہٰذا بدن اور کپڑوں کی حفاظت ضروری ہے اور اس سے پرہیز نہ کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے جو قبر اورآخرت میں عذاب کا باعث ہوسکتا ہے، خواہ یہ اصل کے اعتبار سے کبیرہ ہو، یا اصرار اورعادی ہونے کی وجہ سے کبیرہ بن گیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ دیوار کی جڑ میں نرم جگہ پر پیشاب کیا اور فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو پیشاب کی حاجت ہو تو اس کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:3) اس سے احتیاط کے درج ذیل طریقے ہیں: 1۔ کسی بندش یا روک والی جگہ کا انتخاب کیاجائے، کیونکہ کھلی جگہ پر ہوا پیشاب کا رخ پلٹ سکتی ہے۔2۔ جہاں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھے ادھر ہوا کا رخ نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ آگے سے ہوا پڑنے کی بنا پر کپڑے یا بدن آلودہ ہوسکتا ہے۔ 3۔ پیشاب گرنے کی جگہ نرم ہو تاکہ پیشاب جذب ہوجائے، کیونکہ سخت جگہ پر پیشاب کرنے سے اس کے چھینٹے بدن اور کپڑوں کو ناپاک کرسکتے ہیں۔ 4۔ پیشاب کرتے وقت ڈھلوان کا رخ اگلی جانب ہو کیونکہ پچھلی جانب رخ ہونے سے بدن کے ناپاک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں یہ اشکال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو ان کے کبیرہ ہونے کی نفی فرمائی، پھر اس کے کبیرہ ہونے کا اثبات فرمایا۔ شارحین نے اس سلسلے میں متعدد تاویلات کی ہیں: (الف)۔ یہ دونوں باتیں فی نفسہ کبیرہ نہ تھیں مگر ان کے عادی اور خوگر ہوجانے نے ان کو کبیرہ بنادیا۔ حدیث کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ (كَانَ) جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو استمرار اور دوام کا فائدہ یتا ہے۔ 1۔ ان گناہوں سے احتراز کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی اور نہ ان سے پرہیز کرنے میں انھیں کسی دقت ہی کاسامنا کرنا پڑتا تھا، اس کے باجود ان سے احتراز نہ کیا گیا۔ اس وجہ سے ان میں سنگینی پیدا ہوگئی۔ 2۔ لوگوں کی نگاہوں میں یہ معمولی گناہ تھے، اس لیے وہ ان سے بچنے کا اہتمام نہ کرتے تھے، مگر اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑے جرم تھے، جیسا کہ واقعہ افک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ﴾’’ تم اسے معمولی بات سمجھتے ہو مگر وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔‘‘ (النور:15:24)3۔ جس كبيره کی نفی کی گئی ہے وہ اکبر کے معنی میں ہے، یعنی بڑاگناہ تو ہے مگر قتل عمد کی طرح بہت بڑا نہیں۔ اس طرح نفی واثبات دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں پہلے صغیرہ ہی خیال کیا تھا، لیکن اس کے بعد وحی نازل ہوئی کہ یہ چیزیں صغیرہ نہیں بلکہ کبیرہ ہیں۔ اس لیے آپ نے فوراً استدراک فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب تھے۔ 5۔ ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ہر جرم کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔ حسی اور شرعی۔ یعنی یہ جرم وجود حسی کے اعتبارسے معمولی نظر آتے تھے مگر شرعی اعتبار سے انتہائی سنگین تھے، کیونکہ کپڑا یا بدن ناپاک ہوتو نماز صحیح نہیں ہوتی، نیز لگائی بجھائی کرنے سے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی شریعت کی نظر میں یہ چیزیں معمولی نہ تھیں جس میں یہ لوگ زندگی بھر مبتلا رہے اور اب انھیں اس پاداش میں عذاب دیاجارہا ہے۔ 3۔ کبیرہ، وہ گناہ ہوتا ہے جو دوسرے گناہوں کے لحاظ سے زیادہ قبیح اور شارع کی نظر میں بڑے درجے کی برائی رکھتا ہو اور جس کے ارتکاب پر شریعت میں لعنت،غضب،عذاب کی وعید آئی ہو یا دنیا میں اس کے ارتکاب پر حد لگائی جاسکتی ہو۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ گناہ کا چھوٹابڑا ہونا ایک نسبی امر ہے، لہذا ہر ایسا گناہ جس سے اوپر درجے کا گناہ بھی ہے، وہ اوپر والے کی نسبت سے صغیرہ ہے اور اپنے ماتحت کے اعتبار سے وہی کبیرہ بھی ہے۔ (عمدةالقاري:592/2) اصل بات یہ ہے کہ جس کبیرہ گناہ پر بھی صحیح معنوں میں اللہ کی طرف رجوع ہوجائے وہ صغیرہ جیسا بن جاتا ہے اور جس صغیرہ پر اصرار ومداومت ہو اور اسے صغیرہ خیال کیا جائے ،وہ کبیرہ جیسا بن جاتا ہے،جیسے اگر معمولی چنگاری کو پانی سے نہ بجھایا جائے تو بڑے بڑے محلات کو زمین بوس کردیتی ہے اور اگربڑے بڑے شعلوں کو پانی سے سرد کردیا جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔ 4۔ یہ حدیث نص صریح ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور عذاب بھی اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے اور جن لوگوں کو زمینی قبر نہیں ملتی ہے ان کے لیے وہی قبر ہے جہاں ان کے ذرات پڑے ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس کے لیے کسی برزخی قبر کا وجود ثابت نہیں ہے، جیساکہ بعض فتنہ پرورلوگوں کا خیال ہے۔ اصلاحی صاحب نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب قبر کا انکار کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ قبر میں عذاب ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اس عذاب کا قرآن مجید میں کوئی ذ کر نہیں ہے، اس لیے کہ عالم برزخ میں حساب کتاب نہیں ہوتا۔‘‘ (تدبرحدیث:309/1) درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے ان کا رد ہوتا ہے: ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾’’ فرعون اورآل فرعون کو صبح وشام آگ سے سامنے لایاجاتاہے اور جس دن قیامت ہوگی(فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘ (المؤمن:46:40) اس آیت کریمہ سے واضح طور پرعذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب میں فرمایا: ’’ہاں!قبر کا عذاب حق ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1372) لیکن منکرین، قرآن اور حدیث کی تصریحات کا انکارکرتے ہیں۔ امید ہے کہ احادیث پر تدبر کرنے والوں کو اب عذاب قبر کا ضرور احساس ہو رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ 5۔ اس حدیث کے پیش نظر قبروں پر سبزہ لگانا اور ان پر پھول چڑھانا جائز قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ اگرسبزہ لگانا میت کے حق میں تخفیف عذاب کا باعث ہوتا توصراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اسکی ترغیب دیتے۔ آپ نے مردوں کے متعلق ایصال ثواب اور نفع رسانی کے مختلف طریقے بیان فرمائے ہیں لیکن ان میں پھول چڑھانے یا سبزہ لگانے کا عمل کہیں بیان نہیں فرمایا، حالانکہ یہ ایک عام دستیاب سستا اور بے ضرر نسخہ ہے۔ جس سے ہر وقت زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا مگرآپ نے اسے جاری رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازوں کے مفصل حالات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں، کسی نے بھی اس کی ترغیب نہیں دی۔ صرف حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے عامل ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو قبر پرشاخ رکھنے کی تلقین فرمائی تھی اور بس! دوسرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں ایک صحابی کے عمل کو سنت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
216
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
216
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
216
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
216
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینے یا مکے کے کسی باغ سے گزرے تو وہاں دو آدمیوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے لیکن یہ عذاب کسی بڑی بات پر نہیں دیا جا رہا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ ہاں (بڑی ہی ہے) ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کی عادت میں مبتلا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ایک تر شاخ منگوائی، اس کے دو ٹکڑے کر کے ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ آپ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: ’’ امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں، ان دونوں پر عذاب ہلکا کر دیا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ عنوان قائم کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ پیشاب ناقض وضو ہونے کے ساتھ ساتھ ناپاک اور نجس بھی ہے، لہٰذا بدن اور کپڑوں کی حفاظت ضروری ہے اور اس سے پرہیز نہ کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے جو قبر اورآخرت میں عذاب کا باعث ہوسکتا ہے، خواہ یہ اصل کے اعتبار سے کبیرہ ہو، یا اصرار اورعادی ہونے کی وجہ سے کبیرہ بن گیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ دیوار کی جڑ میں نرم جگہ پر پیشاب کیا اور فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو پیشاب کی حاجت ہو تو اس کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:3) اس سے احتیاط کے درج ذیل طریقے ہیں: 1۔ کسی بندش یا روک والی جگہ کا انتخاب کیاجائے، کیونکہ کھلی جگہ پر ہوا پیشاب کا رخ پلٹ سکتی ہے۔2۔ جہاں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھے ادھر ہوا کا رخ نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ آگے سے ہوا پڑنے کی بنا پر کپڑے یا بدن آلودہ ہوسکتا ہے۔ 3۔ پیشاب گرنے کی جگہ نرم ہو تاکہ پیشاب جذب ہوجائے، کیونکہ سخت جگہ پر پیشاب کرنے سے اس کے چھینٹے بدن اور کپڑوں کو ناپاک کرسکتے ہیں۔ 4۔ پیشاب کرتے وقت ڈھلوان کا رخ اگلی جانب ہو کیونکہ پچھلی جانب رخ ہونے سے بدن کے ناپاک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں یہ اشکال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو ان کے کبیرہ ہونے کی نفی فرمائی، پھر اس کے کبیرہ ہونے کا اثبات فرمایا۔ شارحین نے اس سلسلے میں متعدد تاویلات کی ہیں: (الف)۔ یہ دونوں باتیں فی نفسہ کبیرہ نہ تھیں مگر ان کے عادی اور خوگر ہوجانے نے ان کو کبیرہ بنادیا۔ حدیث کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ (كَانَ) جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو استمرار اور دوام کا فائدہ یتا ہے۔ 1۔ ان گناہوں سے احتراز کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی اور نہ ان سے پرہیز کرنے میں انھیں کسی دقت ہی کاسامنا کرنا پڑتا تھا، اس کے باجود ان سے احتراز نہ کیا گیا۔ اس وجہ سے ان میں سنگینی پیدا ہوگئی۔ 2۔ لوگوں کی نگاہوں میں یہ معمولی گناہ تھے، اس لیے وہ ان سے بچنے کا اہتمام نہ کرتے تھے، مگر اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑے جرم تھے، جیسا کہ واقعہ افک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ﴾’’ تم اسے معمولی بات سمجھتے ہو مگر وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔‘‘ (النور:15:24)3۔ جس كبيره کی نفی کی گئی ہے وہ اکبر کے معنی میں ہے، یعنی بڑاگناہ تو ہے مگر قتل عمد کی طرح بہت بڑا نہیں۔ اس طرح نفی واثبات دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں پہلے صغیرہ ہی خیال کیا تھا، لیکن اس کے بعد وحی نازل ہوئی کہ یہ چیزیں صغیرہ نہیں بلکہ کبیرہ ہیں۔ اس لیے آپ نے فوراً استدراک فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب تھے۔ 5۔ ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ہر جرم کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔ حسی اور شرعی۔ یعنی یہ جرم وجود حسی کے اعتبارسے معمولی نظر آتے تھے مگر شرعی اعتبار سے انتہائی سنگین تھے، کیونکہ کپڑا یا بدن ناپاک ہوتو نماز صحیح نہیں ہوتی، نیز لگائی بجھائی کرنے سے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی شریعت کی نظر میں یہ چیزیں معمولی نہ تھیں جس میں یہ لوگ زندگی بھر مبتلا رہے اور اب انھیں اس پاداش میں عذاب دیاجارہا ہے۔ 3۔ کبیرہ، وہ گناہ ہوتا ہے جو دوسرے گناہوں کے لحاظ سے زیادہ قبیح اور شارع کی نظر میں بڑے درجے کی برائی رکھتا ہو اور جس کے ارتکاب پر شریعت میں لعنت،غضب،عذاب کی وعید آئی ہو یا دنیا میں اس کے ارتکاب پر حد لگائی جاسکتی ہو۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ گناہ کا چھوٹابڑا ہونا ایک نسبی امر ہے، لہذا ہر ایسا گناہ جس سے اوپر درجے کا گناہ بھی ہے، وہ اوپر والے کی نسبت سے صغیرہ ہے اور اپنے ماتحت کے اعتبار سے وہی کبیرہ بھی ہے۔ (عمدةالقاري:592/2) اصل بات یہ ہے کہ جس کبیرہ گناہ پر بھی صحیح معنوں میں اللہ کی طرف رجوع ہوجائے وہ صغیرہ جیسا بن جاتا ہے اور جس صغیرہ پر اصرار ومداومت ہو اور اسے صغیرہ خیال کیا جائے ،وہ کبیرہ جیسا بن جاتا ہے،جیسے اگر معمولی چنگاری کو پانی سے نہ بجھایا جائے تو بڑے بڑے محلات کو زمین بوس کردیتی ہے اور اگربڑے بڑے شعلوں کو پانی سے سرد کردیا جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔ 4۔ یہ حدیث نص صریح ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور عذاب بھی اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے اور جن لوگوں کو زمینی قبر نہیں ملتی ہے ان کے لیے وہی قبر ہے جہاں ان کے ذرات پڑے ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس کے لیے کسی برزخی قبر کا وجود ثابت نہیں ہے، جیساکہ بعض فتنہ پرورلوگوں کا خیال ہے۔ اصلاحی صاحب نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب قبر کا انکار کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ قبر میں عذاب ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اس عذاب کا قرآن مجید میں کوئی ذ کر نہیں ہے، اس لیے کہ عالم برزخ میں حساب کتاب نہیں ہوتا۔‘‘ (تدبرحدیث:309/1) درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے ان کا رد ہوتا ہے: ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾’’ فرعون اورآل فرعون کو صبح وشام آگ سے سامنے لایاجاتاہے اور جس دن قیامت ہوگی(فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘ (المؤمن:46:40) اس آیت کریمہ سے واضح طور پرعذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب میں فرمایا: ’’ہاں!قبر کا عذاب حق ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1372) لیکن منکرین، قرآن اور حدیث کی تصریحات کا انکارکرتے ہیں۔ امید ہے کہ احادیث پر تدبر کرنے والوں کو اب عذاب قبر کا ضرور احساس ہو رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ 5۔ اس حدیث کے پیش نظر قبروں پر سبزہ لگانا اور ان پر پھول چڑھانا جائز قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ اگرسبزہ لگانا میت کے حق میں تخفیف عذاب کا باعث ہوتا توصراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اسکی ترغیب دیتے۔ آپ نے مردوں کے متعلق ایصال ثواب اور نفع رسانی کے مختلف طریقے بیان فرمائے ہیں لیکن ان میں پھول چڑھانے یا سبزہ لگانے کا عمل کہیں بیان نہیں فرمایا، حالانکہ یہ ایک عام دستیاب سستا اور بے ضرر نسخہ ہے۔ جس سے ہر وقت زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا مگرآپ نے اسے جاری رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازوں کے مفصل حالات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں، کسی نے بھی اس کی ترغیب نہیں دی۔ صرف حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے عامل ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو قبر پرشاخ رکھنے کی تلقین فرمائی تھی اور بس! دوسرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں ایک صحابی کے عمل کو سنت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ مجاہد سے وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ ﷺ نے کیوں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے عذاب قبرثابت ہوا۔ یہ دونوں قبروں والے مسلمان ہی تھے اور قبریں بھی نئی تھیں۔ ہری ڈالیاں تسبیح کرتی ہیں اس وجہ سے عذاب میں کمی ہوئی ہوگی۔ بعض کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ ﷺ کی دعا سے ہوا تھا ان ڈالیوں کا اثرنہ تھا۔ واللہ أعلم بالصواب ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Once the Prophet, while passing through one of the grave-yards of Madinah or Makkah heard the voices of two persons who were being tortured in their graves. The Prophet (ﷺ) said, "These two persons are being tortured not for a major sin (to avoid)." The Prophet (ﷺ) then added, "Yes! (They are being tortured for a major sin). Indeed, one of them never saved himself from being soiled with his urine while the other used to go about with calumnies (to make enmiy between friends). The Prophet (ﷺ) then asked for a green leaf of a date-palm tree, broke it into two pieces and put one on each grave. On being asked why he had done so, he replied, "I hope that their torture might be lessened, till these get dried."