تشریح:
(1) اس حدیث کے پیش نظر سودی معاملات میں اس قسم کے حیلے کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً: ایک عمدہ سونے کے عوض کم قیراط والے سونے کو کمی بیشی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہوتو پہلے عمدہ سونے کو روپے کے عوض فروخت کردیا جائے، پھر ان کے عوض دوسرا سونا خریدا جائے۔ ہم جنس اشیاء کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا سود ہے، خواہ نقد بنقد ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور برابر، برابر لینے دینے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4081(1593)) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سودے کو سود قرار دیا ہے اور اسے واپس کرنے کا حکم دیا ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4083(1594)) حضرت بلال ؓ سے بھی اس قسم کا ایک واقعہ منقول ہے، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: افسوس! یہ تو بعینہ سود ہے آئندہ ایسا مت کرنا۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4087(1594)) ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے متعلق اس ضابطے کے حوالے سے آج کل یہ عام سوال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک جنس، مثلاً: کھجور بہتر قسم کی ہو اور دوسری کمتر کوالٹی کی ہو جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں ہے تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے جبکہ اسلام نے ہمیں عدل وانصاف کا حکم دیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پر انسان کی بھوک مٹاتی ہے، محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کے اعتبار سے تبادلے کی گنجائش ہے لیکن بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔ اس بنا پر تبادلہ کرتے وقت دونوں کی مقدار برابر رکھی جائے۔ عدل وانصاف کا یہی تقاضا ہے۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک نوع دوسری نوع سے بہتر ہے،اس لیے ان دونوں کا تبادلہ کرتے وقت فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ عام آدمی کے پاس تو ایسا کوئی آلہ یا ترازو موجود نہیں جو عدل و انصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے طے شدہ نقدی کے عوض فروخت کرو پھر اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو۔اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے صحیح معنوں میں پورے ہوجائیں گے۔ کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جاسکتا، قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے، کوالٹی کے تعین کے لیے قیمت ہی ایک غیر جانبدار اور مناسب ترین ذریعہ ہے۔ اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ محض وزن میں کمی بیشی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے ایک فریق کا حق ضرور مارا جائے گا۔کوالٹی کا فرق متعین کرنے کے لیے وزن کو معیار بنایا گیا تو باہمی رضامندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوں گے جو صحت بیع کے لیے ضروری ہے۔ والله أعلم. (2) صاحب تدبر قرآن نے حسب عادت اس مقام پر بھی خلط مبحث سے کام لیا ہے۔ان کی حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ لکھا ہے:رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ کھجوروں کا مبادلہ برابر مقدار ہی میں کرنا ہوگا۔ (تدبر حدیث:1/486) حالانکہ اس بات کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم ایسا مت کرو بلکہ مقدار برابر رکھو یا ایک کو قیمت سے فروخت کرکے اس قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7351،7350)