تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خریدوفروخت کی چند ایک قسموں سے منع فرمایا ہے جن میں نقصان یا دھوکے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ان کی تفصیل یہ ہے:محاقلہ، یہ حقل سے مشتق ہے جس کے معنی کھیتی کے ہیں۔اس سے مراد یہ ہے کہ خوشۂ گندم کی بیع کھلی گندم سے کی جائے۔یہ اس لیے منع ہے کہ اس میں مساوات کا پتہ نہیں چلتا۔ مخاضرہ کا لفظ خضرہ سے ہے جس کے معنی کچی کھیتی یا کچا پھل ہیں، یعنی پھلوں اور دانوں کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے خریدوفروخت کرنا، البتہ حیوانات کے چارے کے لیے کچی فصل فروخت کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح گاجر، مولی، شلجم اور پیاز وغیرہ کو زمین کے اندر فروخت کرنا جائز ہے۔ (2)واضح رہے کہ محاقلہ اور مخاضرہ دونوں ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ملامسہ اور منابذہ کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے۔ کپڑے کے تھان پر صرف ہاتھ رکھنے سے بیع پختہ ہوجائے،جس کے متعلق علم نہ ہو کہ سوتی ہے یا ریشمی، اسی طرح محض کسی چیز کو پھینک دینے سے بیع پختہ کرلینا۔ لین دین کی ان اقسام میں جوا پایا جاتا ہے، پھر ان میں نقصان اور دھوکے دونوں کا اندیشہ رہتا ہے، اس لیے منع کردیا گیا۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی کھجوریں اور بیل پر لگے انگور خشک کھجور یا کشمش کے عوض خریدنا،یہ بھی منع ہے، البتہ درخت پر لگی ہوئی کھجوریں عرایا کی صورت میں پختہ کھجوروں کے عوض فروخت کی جاسکتی ہیں جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔