تشریح:
(1) دور جاہلیت میں بیع سلم کی ایک عجیب صورت رائج تھی۔ جب کسی کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس اعلی نسل کی اونٹنی ہے تو وہ اس کے مالک سے یہ معاملہ طے کرتا کہ اونٹنی جب حاملہ ہوتو اس کے بچے کا میں خریدار ہوں اور اس کی قیمت پہلے ادا کردیتا۔ اگر مالک کہتا کہ اس بچے کا سودا ہوچکا ہے تو وہ اگلی نسل کا سودا کرنے کےلیے بھی تیار ہوجاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمادیا کیونکہ یہ معدوم اور موہوم چیز کی بیع ہے۔ معلوم نہیں اونٹنی کیا جنتی ہے؟ جنتی بھی ہے یا نہیں یا مردہ بچہ جنم دیتی ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ بیع سلم میں اگر میعاد مجہول ہے تو ایسا سودا ناجائز ہے، گو اونٹنی قریب قریب ایک سال کی مدت میں جنم دیتی ہے، تاہم یہ میعاد مجہول ہے۔ آگے پیچھے کئی دن کا فرق ہوسکتا ہے جو جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ بعض دفعہ قیمت کی ادائیگی کےلیے مہینہ اور دن تو متعین نہ کرتے بلکہ اونٹنی کے بچہ جنم دینے کو وعدہ ٹھہرالیتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حمل کا بچہ بڑا ہوکر جب بچہ جنے تو قیمت ادا ہوگی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔ اس میعاد میں جہالت تھی،اس لیے منع کردیا گیا۔ اس حدیث کے متعلقہ کچھ مباحث کتاب البیوع، حدیث :2143 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔