تشریح:
(1) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ مسلمان، دارالاسلام مدینہ طیبہ میں تھے اور امیہ بن خلف کافر، دارالحرب میں تھا۔ ان دونوں کا باہمی معاہدہ ہوا کہ ہم اپنے اپنے علاقے میں ایک دوسرے کے حقوق اور مصالح کا خیال رکھیں گے۔ یہی وکالت ہے۔ وکیل کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے مؤکل کے مصالح کا خیال رکھے۔ یقیناً عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی اطلاع کےبعد ہی ایسا کیا ہوگا جس پر آپ نے انکار نہیں کیا۔ اس سے وکالت صحیح ثابت ہوگئی۔ حافظ ابن حجر، امام ابن منذر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مسلمان کا کسی حربی مستامن (امن چاہنے والے) کو وکیل بنانا، اسی طرح حربی مستامن کا کسی مسلمان کو وکیل بنانا اس کے جوازمیں کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح الباري:605/4)
(2) ابن عوف ؓ نے ایک مشرک کو بچانے کی سر توڑ کوشش کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے حسب ذیل مقاصد کے پیش نظر یہ اقدام کیا: ٭ اسے بھگانے میں ایک یہ مقصد تھا کہ وہ اس وقت موت سے بچ جائے۔ ٭فرار کی صورت میں اس کے ایمان لانے کی امید تھی شاید وہ آئندہ مسلمان ہو جائے۔ ٭اسے بھگانے سے کفار کی شان شوکت تو ڑنا مقصود تھی کیونکہ جب اس کے متبعین اور ماننے والوں کو معلوم ہوگا کہ ہمارا سردار بھاگ گیا ہے تو وہ بھی میدان جنگ میں نہیں ٹھہریں گے، یعنی اس اقدام سے ان کی جماعت کو منتشر کرنا اور مسلمانوں کو ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنا مقصود تھا۔
(3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے کہ یوسف کی صالح سے اور ابراہیم کی اپنے باپ سے ملاقات ثابت ہے۔ والله أعلم.