تشریح:
(1) اس سے ملتا جلتا واقعہ پانچ چھ جلیل القدر صحابۂ کرام ؓ کے ساتھ بھی پیش آیا،چنانچہ روایات میں حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابو اسید انصاری اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا ذکر ملتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ شیطان نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے کہا: میں نصیبین سے آرہا ہوں، اگر مجھے کہیں سے کچھ مل جاتا تو میں تمہارے پاس نہ آتا، حقیقت یہ ہے کہ ہم تمھارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے رسول حضرت محمد ﷺ تشریف لائے۔ جب ان پر دو آیات نازل ہوئیں تو ہم یہاں سے بھاگ گئے ہیں۔ اگر تو مجھے چھوڑ دے تو وہ آیات تجھے بتادوں گا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات اٰمن الرسول سے آخر سورت تک کی نشاندہی کی۔ (فتح الباري:615/4) (2) یہ حدیث امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت ابو ہریرہ ؓ فطرانے کی حفاظت کےلیے بطور وکیل تعینات تھے۔ جب شیطان نے غلے سے کچھ لیا تو حضرت ابو ہریرہ ؓ خاموش رہے اور اسے کچھ نہ کہا، پھر جب رسول اللہ ﷺ کے حضور معاملہ پیش ہوا تو آپ نے اس کا نوٹس نہ لیا تو گویا آپ کی طرف سے یہ اجازت تھی اور قرض کی صورت بایں طور ہے کہ وہ غلہ فطرانے کا تھا۔ جب چور نے اسے لیا اور اپنی محتاجی کا عذر پیش کیا تو اسے چھوڑ دیا گیا تو گویا یہ غلہ اسے تقسیم ہونے کے وقت تک قرض دیا گیا کیونکہ صحابۂ کرام ؓ فطرانہ تقسیم سے تین دن پہلے جمع کرتے تھے۔ پھر اسے تقسیم کرتے تھے اس حدیث سے حافظ ابن حجر ؒ نے متعدد فوائد اخذ کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 0(فتح الباري:616/4)