تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک نخلستان اللہ کی راہ میں وقف کیا تھا، دیگر ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ اس وقف کا متولی دستور کے مطابق خود بھی کھاسکتا ہے اور کسی دوست کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرے گا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2764) (2) امام بخاری ؒ اس عنوان سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وکالت جس طرح بندوں کی خالص املاک میں ہوسکتی ہے اس طرح اوقاف میں اس سے کام لیا جاسکتا ہے۔ وقف کا متولی اگر اس کی نگہداشت کے لیے اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اس کے لیے اپنی ضرورت کے مطابق لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) حضرت عمر ؓ نے یہ ضابطہ قرآن کریم سے اخذ کیا تھا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿مَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ’’یتیم کا سرپرست اگر ضرورت مند ہے تو دستور کے مطابق لے سکتا ہے۔‘‘ (النساء6:4) اس روایت کو علامہ مزی نے متصل سند سے بیان کیا ہے،اس میں حضرت عمرو بن دینار حضرت ابن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں۔(فتح الباري:619/4) (4) حضرت ابن عمر ؓ اہل مکہ کو بطور ہدیہ دیتے تھے، وہ اس لیے کہ وقف عمر میں یہ شرط تھی کہ مہمانوں کو بھی اس سے کھلایا جائے۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2764) وقف سے متعلق دیگر احکام ومسائل کتاب الوقف میں بیان کیے جائیں گے۔