تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایسے خالص حقوق اللہ میں وکالت کو ثابت کیا ہے جو عبادت کے علاوہ ہیں۔ واضح رہے کہ عبادات محضہ، مثلاً: نماز، روزہ اور طہارت وغیرہ میں وکالت جائز نہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انیس کو حد قائم کرنے کے لیے بھیجا کیونکہ وہ اس عورت کے قبیلے سے تھے، اگر کسی دوسرے قبیلے کہ شخص کو حد قائم کرنے کے لیے بھیجا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ اس حکم سے نفرت کرتے۔ حضرت انیس اور ملزمہ عورت کا تعلق قبیلۂ اسلم سے تھا۔ (3) اس حدیث سے قانونی پہلو یہ برآمد ہوتا ہے کہ اقرار جرم سے گواہوں کی ضرورت ساقط ہوجاتی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہواکہ شادی شدہ زانی یا زانیہ کےلیے زنا کی حد سنگسار ہی ہے۔