قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المُزَارَعَةِ (بَابُ المُزَارَعَةِ بِالشَّطْرِ وَنَحْوِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ: عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: «مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلَّا يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ» وَزَارَعَ عَلِيٌّ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ، وَالقَاسِمُ، وَعُرْوَةُ، وَآلُ أَبِي بَكْرٍ، وَآلُ عُمَرَ، وَآلُ عَلِيٍّ، وَابْنُ سِيرِينَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ: «كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ» وَعَامَلَ عُمَرُ، «النَّاسَ عَلَى إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عِنْدِهِ فَلَهُ الشَّطْرُ، وَإِنْ جَاءُوا بِالْبَذْرِ فَلَهُمْ كَذَا» وَقَالَ الحَسَنُ: «لاَ بَأْسَ أَنْ تَكُونَ الأَرْضُ لِأَحَدِهِمَا، فَيُنْفِقَانِ جَمِيعًا، فَمَا خَرَجَ فَهُوَ بَيْنَهُمَا» وَرَأَى ذَلِكَ الزُّهْرِيُّ وَقَالَ الحَسَنُ: «لاَ بَأْسَ أَنْ يُجْتَنَى القُطْنُ عَلَى النِّصْفِ» وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ، وَابْنُ سِيرِينَ، وَعَطَاءٌ، وَالحَكَمُ، وَالزُّهْرِيُّ، وَقَتَادَةُ: «لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْطِيَ الثَّوْبَ بِالثُّلُثِ أَوِ الرُّبُعِ» وَنَحْوِهِ وَقَالَ مَعْمَرٌ: «لاَ بَأْسَ أَنْ تَكُونَ المَاشِيَةُ عَلَى الثُّلُثِ، وَالرُّبُعِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى»

2328. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ ثَمَانُونَ وَسْقَ تَمْرٍ وَعِشْرُونَ وَسْقَ شَعِيرٍ فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنْ الْمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ فَمِنْهُنَّ مَنْ اخْتَارَ الْأَرْضَ وَمِنْهُنَّ مَنْ اخْتَارَ الْوَسْقَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتْ الْأَرْضَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

( یہ بلا تردد جائز ہے ) اور قیس بن مسلم نے بیان کیا اور ان سے ابوجعفر نے بیان کیا کہ مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ حضرت علی اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور حضرت ابوبکر کی اولاد اور حضرت عمر کی اولاد اور حضرت علی کی اولاد اور ابن سیرین ؓ سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ اور عبدالرحمن بن اسود نے کہا کہ میں عبدالرحمن بن یزید کے ساتھ کھیتی میں ساجھی رہا کرتا تھا اور حضرت عمر ؓ نے لوگوں سے کاشت کا معاملہ اس شرط پر طے کیا تھا کہ اگر بیج وہ خود ( حضرت عمر ؓ ) مہیا کریں تو پیداوار کا آدھا حصہ لیں اور اگرتخم ان لوگوں کا ہو جو کام کریں گے تو پیداوار کے اتنے حصے کے وہ مالک ہوں۔ حسن بصری  نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زمین کسی ایک شخص کی ہو اور اس پر خرچ دونوں ( مالک اور کاشتکار ) مل کر کریں۔ پھر جو پیداوار ہواسے دونوں بانٹ لیں۔ زہری نے بھی یہی فتوی دیا تھا۔ اور حسن نے کہا کہ کپاس اگر آدھی ( لینے کی شرط ) پر چنی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابراہیم، ابن سیرین، عطاء، حکم، زہری اور قتادہ  نے کہا کہ ( کپڑا بننے والوں کو ) دھاگا اگر تہائی، چوتھائی یا اسی طرح کی شرکت پر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ معمر نے کہا کہ اگر جانور ایک معین مدت کے لیے اس کی تہائی یا چوتھائی کمائی پر دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ تشریح : باب کے ذیل میں کئی ایک اثر مذکور ہوئے ہیں۔ جن کی تفصیل یہ کہ ابوجعفر مذکور امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ہے جو امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے والد ہیں۔ حضرت علی اور سعد اور ابن مسعود اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم کے اثروں کو ابن ابی شیبہ نے اور قاسم کے اثر کو عبدالرزاق نے اور عروہ کے اثر کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔ اور ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے امام محمد باقر سے نکالا۔ اس میں یہ ہے ان سے بٹائی کو پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے ابوبکر اور عمر اور علی سب کے خاندان والوں کو یہ کرتے دیکھا ہے اور ابن سیرین کے اثر کو سعد بن منصور نے وصل کیا اور عبدالرحمن بن اسود کے اثر کو ابن ابی شیبہ اور نسائی نے وصل کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن ابی شیبہ اور بیہقی اور طحاوی نے وصل کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب اس اثر کے لانے سے یہ ہے کہ مزارعت اور مخابرہ دوونوں ایک ہیں۔ بعض نے کہا جب تخم زمین کا مالک دے تو وہ مزارعت ہے اور جب کام کرنے والا تخم اپنے پاس سے ڈالے تو وہ مخابرہ ہے۔ بہرحال مزارعت اور مخابرہ امام احمد اور خزیمہ اور ابن منذر اور خطابی کے نزدیک درست ہے اور باقی علماءنے اس کو ناجائز کہا ہے۔ لیکن صحیح مذہب امام احمد کا ہے کہ یہ جائز ہے۔ حسن بصری کے اثر کو سعید بن منصور نے وصل کیا ہے اور زہری کے اثر کو ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے وصل کیا اور ابراہیم کے قول کو ابوبکر اثرم نے اور ابن سیرین کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور عطا اور قتادہ اور حکم اور زہری کے بھی اقوال کو انہوں نے وصل کیا۔ ( خلاصہ از وحیدی ) مطلب یہ ہے کہ مزارعت کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً فی بیگھہ لگان بصورت روپیہ مقرر کر لیا جائے۔ یہ صورت بہرحال جائز ہے۔ ایک صورت یہ کہ مالک زمین کا کوئی قطعہ اپنے لیے خاص کر لے کہ اس کی پیداوار خاص میری ہوگی یا مالک غلہ طے کر لے کہ پیداوار کچھ بھی ہو میں اتنا غلہ لوں گا۔ یہ صورتیں اس لیے ناجائز ہیں کہ معاملہ کرتے وقت دونوں فریق ناواقف ہیں۔ مستقبل میں ہر دو کے لیے نفع و نقصان کا احتمال ہے۔ اس لیے شریعت نے ایسے دھوکے کے معاملہ سے روک دیا۔ ایک صورت یہ ہے کہ تہائی یا چوتھائی پر معاملہ کیا جائے یہ صورت بہرحال جائز ہے اور یہاں اسی کا بیان مقصود ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : والحق ان البخاری انما اراد بسیاق ہذہ الآثارالاشارۃ الی ان الصحابۃ لم ینقل عنہم خلاف فی الجواز خصوصاً اہل المدینۃ فیلزم من یقدم عملہم علی الاخبار المرفوعۃ ان یقولوا بالجواز علی قاعدتہم ( فتح الباری ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آثار کے یہاں ذکر کرنے سے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ صحابہ کرام سے جواز کے خلاف کچھ منقول نہیں ہے خاص طور پر مدینہ والوں سے۔

2328.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے (یہودسے) خیبر کامعاملہ نصف پیداوار پر طے کیا تھا جو اس زمین سے پیدا ہو، خواہ وہ کھجور ہو یا غلہ۔ آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سو وسق دیتے تھے، جن میں اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو ہوتے تھے۔ جب حضرت عمر  ؓ نے خیبر کی زمین تقسیم کی تو آپ نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ ان کے لیے زمین اور پانی متعین کردیا جائے یا جو راشن انھیں ملتا رہا ہے وہی ملتا رہے، چنانچہ ان میں سے بعض نے زمین کاانتخاب کیا اور کچھ نے پیداوار کا۔ حضرت عائشہ  ؓ نے زمین لینے کو پسند فرمایا۔