Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The washing out of blood)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
233.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ اکثر مستحاضہ رہتی ہوں اور اس کی وجہ سے پاک نہیں ہو سکتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ نہیں، نماز مت چھوڑ۔ یہ ایک رگ کا خون ہے، حیض نہیں۔ پھر جب تیرے حیض کا وقت آ جائے تو نماز چھوڑ دے اور جب وقت گزر جائے تو (اپنے بدن اور کپڑوں سے) خون دھو کر نماز ادا کر۔‘‘ ہشام نے کہا: میرے والد (عروہ بن زبیر) نے کہا: (آپ نے فرمایا:) ’’پھر ہر نماز کے لیے وضو کر حتی کہ وہی (حیض کا) وقت پھرآ جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر حیض کے مسائل بیان کرنے کے لیے نہیں صرف خون کو دھونے کے اثبات کے لیے یہ حدیث لائے ہیں کیونکہ مسائل حیض آئندہ کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔ عورتوں کو تین طرح کے خون آتے ہیں۔ خون حیض خون استحاضہ اور خون نفاس ان تینوں کے احکام الگ الگ ہیں جو آئندہ بیان ہوں گے۔ اس مقام پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ استحاضہ کا خون رگ پھٹنے سے آتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہو تا ہے جب رگوں میں خون زیادہ بھرجاتا ہے تو وہ پھٹ جاتی ہیں جس سے خون جاری ہوجاتا ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین وجوہات بیان فرمائی ہیں آپ نے فرمایا: ’’یہ خون رکضہ شیطان یا انقطاع رگ یا کسی بیماری کے لاحق ہونے سے آتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد:464/6) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استحاضہ کی صورت انقطاع عرق اور بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی غیر طبعی خون کبھی فساد و مزاج کے سبب اور کبھی امتلائے عروق کی وجہ سے خارج ہوتا ہے اور کبھی خون استحاضہ کی وجہ رکضہ شیطان بنتی ہے۔ علماء نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ شیطان کو موقع ملتا ہے کہ عورت کو التباس میں ڈال دے تاکہ یہ ایک دینی معاملے میں مغالطے کا شکار ہو جائے کہ وہ خود کو نماز کے قابل خیال نہ کرے یا نماز کا اہل تصور کرے۔ لیکن بعض علماء نے مذکورہ تاویل اور مفہوم سے اتفاق نہیں کیا اور کضۃ شیطان کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا ہے یعنی شیطان کے کچوکہ مارنے سے بھی بعض دفعہ استحاضے کا خون جاری ہو جاتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جسے بار بار ہوا یا پیشاب آنے کی بیماری ہو وہ بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کر کے اسے ادا کرتا رہے، کیونکہ مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت تازہ وضو کی صراحت حدیث میں موجود ہے، اگرچہ امام مسلم نے اس لفظ کے متعلق اپنے تردد کا اظہار کیا ہے اور فرمایا کہ حدیث حماد بن زید میں ایک لفظ کے اضافے کے پیش نظر ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:754۔ (333)) امام مسلم کا اشارہ اسی لفظ ''توضئي" کی طرف ہے جو کسی قسم کے تردد یا تفرد کے بغیر صحیح ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ہشام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روایت کے آخر میں اسے بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لفظ مذکور کی صحت کا اقرارکیا ہے۔ (فتح الباري:433/1) اس لفظ کا تقاضا ہے کہ مستقل عذر والے مرد یا عورت کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا ہوگا اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ نماز ادا کرنے کے بعد وضو خود بخود ختم ہو جائے گا جبکہ احناف اور حنابلہ کا موقف ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہے اور اس وقت کے اندر جتنے چاہے فرائض ونوافل پڑھ لے، خواہ وہ اس نماز سے غیر متعلق ہی کیوں نہ ہوں، اس دوران میں فوت شدہ نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مالکی حضرات کے نزدیک یہ وضو اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک اسے کوئی ناقض وضو لا حق نہ ہو۔ یہ مستقل شرعی عذر اس کے لیے ناقض نہیں ہو گا۔ بہرحال حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ اس طرح کے مستقل شرعی عذر والے کے لیے ہر نماز نئے وضو سے اداکرنی ہو گی۔ باقی تاویلات اس لفظ کے منافی ہیں۔ لیکن اس مقام پر ’’تدبر‘‘ کی آڑ میں حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ ’’امام تدبر‘‘ فرماتے ہیں: ’’لیکن فی الواقع اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرے جبکہ ازروئے شریعت وہ پاک ہے، ایک بیماری کی بنیاد پر یہ پابندی کیوں عائد کر دی جائے کہ وہ وضو کے بارے میں دین کی ایک رخصت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی؟ اس معاملہ میں صفائی کے نقطہ نظر سے بھی اس کی کوئی خاص اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔‘‘ (تدبر حدیث:320/1) بعض حضرات نے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کے حکم کو حضرت عروہ کا کلام قراردیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عروہ کا فتوی ہوتا تو(تَتَوَضَّأُ) کہا جاتا کہ وہ عورت وضو کرے لیکن صیغہ خطاب کا استعمال اس امر کی دلیل ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے اور رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے۔ (فتح الباري:433/1) 3۔ حدیث میں حیض سے متعلق حکم کا دارومدار اس کے اقبال وادبار پر ہے۔ اس کی علامت کیا ہے اس کے متعلق دو موقف ہیں: (1)۔ شوافع کے نزدیک اس کی تمیز الوان سے ہوتی ہے، یعنی گہرا سرخ رنگ جو سیاہی مائل ہو وہ حیض کا خون ہے، کیونکہ حدیث میں رنگ کو حیض کی علامت قراردیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ حیض کا خون سیاہ رنگ سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:286) اس لیے حیض کا خون اپنے رنگ کی وجہ سے استحاضہ کے خون سے ممتاز ہے اور اس کے آنے جانے سے پتہ چلتا رہے گا کہ حیض کا آغاز اور اختتام کب ہوا۔ (2)۔ احناف کے نزدیک اقبال وادبار کا اعتبار عورت کی عادت سے ہو گا، یعنی عورت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کب شروع ہوتے اور کب انتہا کو پہنچتے ہیں، یعنی اقبال و ادبار کو اس کی عادت سے پہچانا جائے گا، کیونکہ حدیث میں ہے کہ وہ ان ایام کے شمار پر نظر رکھے جو ہر مہینے اس کے حیض کے لیے مخصوص ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:274) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں ایک روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ جتنے دن اسے حیض آتا ہے اس کی مقدار نماز چھوڑدے، یعنی ان دنوں میں نماز نہ پڑھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:754 (333)) حاصل کلام یہ ہے کہ عورت اگر معتادہ ہے، یعنی اپنی عادت کو پہچانتی ہے تو اقبال وادبار کا حال حسب عادت ہوگا اور اگر غیر معتادہ یا (مُبدِئَة) ہے تو رنگ وغیرہ سے اس کی پہچان ہوگی۔ نوٹ: اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
230
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
228
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
228
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
228
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ اکثر مستحاضہ رہتی ہوں اور اس کی وجہ سے پاک نہیں ہو سکتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ نہیں، نماز مت چھوڑ۔ یہ ایک رگ کا خون ہے، حیض نہیں۔ پھر جب تیرے حیض کا وقت آ جائے تو نماز چھوڑ دے اور جب وقت گزر جائے تو (اپنے بدن اور کپڑوں سے) خون دھو کر نماز ادا کر۔‘‘ ہشام نے کہا: میرے والد (عروہ بن زبیر) نے کہا: (آپ نے فرمایا:) ’’پھر ہر نماز کے لیے وضو کر حتی کہ وہی (حیض کا) وقت پھرآ جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر حیض کے مسائل بیان کرنے کے لیے نہیں صرف خون کو دھونے کے اثبات کے لیے یہ حدیث لائے ہیں کیونکہ مسائل حیض آئندہ کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔ عورتوں کو تین طرح کے خون آتے ہیں۔ خون حیض خون استحاضہ اور خون نفاس ان تینوں کے احکام الگ الگ ہیں جو آئندہ بیان ہوں گے۔ اس مقام پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ استحاضہ کا خون رگ پھٹنے سے آتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہو تا ہے جب رگوں میں خون زیادہ بھرجاتا ہے تو وہ پھٹ جاتی ہیں جس سے خون جاری ہوجاتا ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین وجوہات بیان فرمائی ہیں آپ نے فرمایا: ’’یہ خون رکضہ شیطان یا انقطاع رگ یا کسی بیماری کے لاحق ہونے سے آتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد:464/6) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استحاضہ کی صورت انقطاع عرق اور بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی غیر طبعی خون کبھی فساد و مزاج کے سبب اور کبھی امتلائے عروق کی وجہ سے خارج ہوتا ہے اور کبھی خون استحاضہ کی وجہ رکضہ شیطان بنتی ہے۔ علماء نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ شیطان کو موقع ملتا ہے کہ عورت کو التباس میں ڈال دے تاکہ یہ ایک دینی معاملے میں مغالطے کا شکار ہو جائے کہ وہ خود کو نماز کے قابل خیال نہ کرے یا نماز کا اہل تصور کرے۔ لیکن بعض علماء نے مذکورہ تاویل اور مفہوم سے اتفاق نہیں کیا اور کضۃ شیطان کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا ہے یعنی شیطان کے کچوکہ مارنے سے بھی بعض دفعہ استحاضے کا خون جاری ہو جاتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جسے بار بار ہوا یا پیشاب آنے کی بیماری ہو وہ بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کر کے اسے ادا کرتا رہے، کیونکہ مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت تازہ وضو کی صراحت حدیث میں موجود ہے، اگرچہ امام مسلم نے اس لفظ کے متعلق اپنے تردد کا اظہار کیا ہے اور فرمایا کہ حدیث حماد بن زید میں ایک لفظ کے اضافے کے پیش نظر ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:754۔ (333)) امام مسلم کا اشارہ اسی لفظ ''توضئي" کی طرف ہے جو کسی قسم کے تردد یا تفرد کے بغیر صحیح ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ہشام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روایت کے آخر میں اسے بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لفظ مذکور کی صحت کا اقرارکیا ہے۔ (فتح الباري:433/1) اس لفظ کا تقاضا ہے کہ مستقل عذر والے مرد یا عورت کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا ہوگا اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ نماز ادا کرنے کے بعد وضو خود بخود ختم ہو جائے گا جبکہ احناف اور حنابلہ کا موقف ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہے اور اس وقت کے اندر جتنے چاہے فرائض ونوافل پڑھ لے، خواہ وہ اس نماز سے غیر متعلق ہی کیوں نہ ہوں، اس دوران میں فوت شدہ نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مالکی حضرات کے نزدیک یہ وضو اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک اسے کوئی ناقض وضو لا حق نہ ہو۔ یہ مستقل شرعی عذر اس کے لیے ناقض نہیں ہو گا۔ بہرحال حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ اس طرح کے مستقل شرعی عذر والے کے لیے ہر نماز نئے وضو سے اداکرنی ہو گی۔ باقی تاویلات اس لفظ کے منافی ہیں۔ لیکن اس مقام پر ’’تدبر‘‘ کی آڑ میں حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ ’’امام تدبر‘‘ فرماتے ہیں: ’’لیکن فی الواقع اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرے جبکہ ازروئے شریعت وہ پاک ہے، ایک بیماری کی بنیاد پر یہ پابندی کیوں عائد کر دی جائے کہ وہ وضو کے بارے میں دین کی ایک رخصت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی؟ اس معاملہ میں صفائی کے نقطہ نظر سے بھی اس کی کوئی خاص اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔‘‘ (تدبر حدیث:320/1) بعض حضرات نے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کے حکم کو حضرت عروہ کا کلام قراردیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عروہ کا فتوی ہوتا تو(تَتَوَضَّأُ) کہا جاتا کہ وہ عورت وضو کرے لیکن صیغہ خطاب کا استعمال اس امر کی دلیل ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے اور رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے۔ (فتح الباري:433/1) 3۔ حدیث میں حیض سے متعلق حکم کا دارومدار اس کے اقبال وادبار پر ہے۔ اس کی علامت کیا ہے اس کے متعلق دو موقف ہیں: (1)۔ شوافع کے نزدیک اس کی تمیز الوان سے ہوتی ہے، یعنی گہرا سرخ رنگ جو سیاہی مائل ہو وہ حیض کا خون ہے، کیونکہ حدیث میں رنگ کو حیض کی علامت قراردیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ حیض کا خون سیاہ رنگ سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:286) اس لیے حیض کا خون اپنے رنگ کی وجہ سے استحاضہ کے خون سے ممتاز ہے اور اس کے آنے جانے سے پتہ چلتا رہے گا کہ حیض کا آغاز اور اختتام کب ہوا۔ (2)۔ احناف کے نزدیک اقبال وادبار کا اعتبار عورت کی عادت سے ہو گا، یعنی عورت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کب شروع ہوتے اور کب انتہا کو پہنچتے ہیں، یعنی اقبال و ادبار کو اس کی عادت سے پہچانا جائے گا، کیونکہ حدیث میں ہے کہ وہ ان ایام کے شمار پر نظر رکھے جو ہر مہینے اس کے حیض کے لیے مخصوص ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:274) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں ایک روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ جتنے دن اسے حیض آتا ہے اس کی مقدار نماز چھوڑدے، یعنی ان دنوں میں نماز نہ پڑھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:754 (333)) حاصل کلام یہ ہے کہ عورت اگر معتادہ ہے، یعنی اپنی عادت کو پہچانتی ہے تو اقبال وادبار کا حال حسب عادت ہوگا اور اگر غیر معتادہ یا (مُبدِئَة) ہے تو رنگ وغیرہ سے اس کی پہچان ہوگی۔ نوٹ: اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابومعاویہ نے، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ (عروہ) کے واسطے سے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ ابوحبیش کی بیٹی فاطمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کی بیماری ہے۔ اس لیے میں پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، یہ ایک رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے۔ تو جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ دن گزر جائیں تو اپنے (بدن اور کپڑے) سے خون کو دھو ڈال پھر نماز پڑھ۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے باپ عروہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے یہ (بھی) فرمایا کہ پھر ہر نماز کے لیے وضو کر یہاں تک کہ وہی (حیض کا) وقت پھر آ جائے۔
حدیث حاشیہ:
استحاضہ ایک بیماری ہے جس میں عورت کا خون بند نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حکم ہے کہ ہر نماز کے لیے مستقل وضو کرے اور حیض کے جتنے دن اس کی عادت کے مطابق ہوتے ہوں ان دنوں کی نماز نہ پڑھے۔ اس کے لیے ان ایام کی نماز معاف ہے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ ہوا خارج ہونے یا پیشاب کے قطرے وغیرہ کی بیماری میں مبتلا ہوں، وہ نماز ترک نہ کریں بلکہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرلیا کریں۔ پھر بھی حدث وغیرہ ہوجائے تو پھراس کی پرواہ نہ کریں۔ جس طرح استحاضہ والی عورت خون آنے کی پرواہ نہ کرے، اسی طرح وہ بھی نماز پڑھتے رہیں۔ شریعت حقہ نے ان ہدایات سے عورتوں کی پاکیزگی اور طبی ضروریات کے پیش نظر ان کی بہترین رہ نمائی کی ہے اور اس بارے میں معلومات کوضروری قرار دیا۔ ان لوگوں پر بے حد تعجب ہے جو انکارِحدیث کے لیے ایسی ہدایات پر ہنستے ہیں۔ اور آج کے دور کے اس جنسی لٹریچر کو سراہتے ہیں جو سراسر عریانیت سے بھرپورہے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Fatima bint Abi Hubaish came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) I get persistent bleeding from the uterus and do not become clean. Shall I give up my prayers?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "No, because it is from a blood vessel and not the menses. So when your real menses begins give up your prayers and when it has finished wash off the blood (take a bath) and offer your prayers." Hisham (the sub narrator) narrated that his father had also said, (the Prophet (ﷺ) told her): "Perform ablution for every prayer till the time of the next period comes."