تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ حیوانات کے بول و بزار کے مسائل بیان کر رہے ہیں کہ تمام ابوال ناپاک نہیں بلکہ جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے، مثلاً: اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس وغیرہ ان کا بول و براز پاک ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے حضرت ابو موسی ؓ کا ایک عمل پیش کیا ہے جسے امام بخاری ؒ کے شیخ ابو نعیم نے اپنی تالیف (کتاب الصلوة) میں موصولاً بیان کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انھوں نے کوفے سے باہر دارالبرید میں نماز پڑھائی، جہاں گوبر پڑا ہوا تھا جبکہ پاس ہی میدانی علاقہ بھی موجود تھا اور انھیں کہا گیا کہ آپ اپنے قریب جنگل یا میدانی علاقے میں اس نماز کا اہتمام کر لیں انھوں نے فرمایا: یہاں اور وہاں دونوں برابر ہیں۔ دراصل حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کوفے کے گورنر تھے اور سرکاری ڈاک کی ترسیل کے لیے شہروں کے درمیان اڈے بنے ہوئے تھے جسے دارالبرید کہا جا تا تھا۔ اس زمانے میں گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ڈاک برداری میں استعمال ہوتے تھے اور دارالبرید میں ان کے باندھنے اور گھاس چارے کا انتظام ہوتا تھا، ان میں گوبر بھی ہوتا اور زمین بھی ان کے پیشاب سے تر رہتی، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ وہاں نماز پڑھ لیتے تھے۔ یہ کسی مجبوری کے پیش نظر نہیں بلکہ سامنے ہی کھلا میدان تھا۔ اگر کبھی توجہ دلائی جاتی کہ حضرت وہاں نماز پڑھ لیں تو فرماتے محل وقوع کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں، حالانکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ عام معاملات میں متشدد ہونے کی حد تک محتاط تھے جن کا تشدد اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ پیشاب کرتے وقت اپنے ساتھ ایک بوتل رکھتے تاکہ پیشاب کے چھینٹوں سے محفوظ رہ سکیں، ان کا ایسے مقام پر نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ’’ماکول اللحم ‘‘حیوانات کا بول و براز نجس نہیں۔
2۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ کا دوسرا استدلال حدیث عرنیین ہے، اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں سے متعلق ہے جن کی تعداد آٹھ تھی(حدیث:3018) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب بطور دوا تجویز فرمایا۔ نیز صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ مسلمان اونٹوں کے پیشاب سے علاج کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5781) اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قطعی طور پر اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ حدیث نبوی ہے ۔’’اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی۔‘‘(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3873) صحیح بخاری میں یہ الفاظ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرف منسوب ہیں۔ (صحیح البخاري، الأشریة، باب:رقم 15) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اونٹوں کے دودھ اور پیشاب میں پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3874) معلوم ہوا کہ اونٹوں کا پیشاب حرام نہیں۔ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الطب، حدیث:3874) امام مالک ؒ ، امام احمد ؒ، ابن خذیمہ ؒ، ابن منذرؒ، ابن حبان ؒ اور دیگر کئی علمائے سلف کے نزدیک ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ اس کے برعکس امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہ ؒ، اور دیگر کئی علماء کے نزدیک تمام جانوروں کا پیشاب ناپاک ہے۔ دوسرے قول کے قائلین پیشاب سے پرہیز کرنے کی روایت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں انسانوں کے علاوہ جانوروں کا پیشاب بھی ہے، لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں، کیونکہ حلال جانوروں کے پیشاب کا استثنا حدیث سے ثابت ہے۔ اور ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کے ناپاک ہونے کے متعلق دیگرتمام روایات بھی ضعیف ہیں۔ بہرحال جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کاپیشاب نجس نہیں، جیساکہ حدیث الباب سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ اور جس پیشاب سےاجتناب کرنے کا حکم ہے اس سے مراد بھی لوگوں کاپیشاب ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے کہا ہے۔ نیزحدیث (قبرین) اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کاواقعہ بھی اس کا واضح ثبوت ہے، اس کے متعلق جو بھی اعتراضات یا اشکالات پیش کیے گئے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگراونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا اوراس کی بطور دوا بامر مجبوری اجازت دی ہوتی تو کم از کم رسول اللہ ﷺ اس کی وضاحت فرما دیتے اور استعمال کرنے والوں کو ہدایت دیتے کہ اس کے استعمال کے بعد تم نے اپنے منہ دھولینے ہیں، جبکہ ایسی کوئی وضاحت کتب حدیث میں نہیں ملتی، اس کےعلاوہ رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الطب، حدیث:3874)