قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوُضُوءِ (بَابُ أَبْوَالِ الإِبِلِ، وَالدَّوَابِّ، وَالغَنَمِ وَمَرَابِضِهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَصَلَّى أَبُو مُوسَى فِي دَارِ البَرِيدِ وَالسِّرْقِينِ، وَالبَرِّيَّةُ إِلَى جَنْبِهِ، فَقَالَ: «هَاهُنَا وَثَمَّ سَوَاءٌ»

233. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ أُنَاسٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ، فَاجْتَوَوْا المَدِينَةَ «فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِلِقَاحٍ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا» فَانْطَلَقُوا، فَلَمَّا صَحُّوا، قَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَجَاءَ الخَبَرُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَلَمَّا ارْتَفَعَ النَّهَارُ جِيءَ بِهِمْ، «فَأَمَرَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسُمِرَتْ أَعْيُنُهُمْ، وَأُلْقُوا فِي الحَرَّةِ، يَسْتَسْقُونَ فَلاَ يُسْقَوْنَ». قَالَ أَبُو قِلاَبَةَ: «فَهَؤُلاَءِ سَرَقُوا وَقَتَلُوا، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے داربرید میں نماز پڑھی ( حالانکہ وہاں گوبر تھا ) اور ایک پہلو میں جنگل تھا۔ پھر انھوں نے کہا یہ جگہ اور وہ جگہ برابر ہیں۔تشریح : دارالبرید کوفہ میں سرکاری جگہ تھی۔ جس میں خلیفہ کے ایلچی قیام کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر اور عثمان ؓ کے زمانوں میں ابوموسیٰ ؓ کوفہ کے حاکم تھے۔ اسی جگہ اونٹ، بکری وغیرہ جانوربھی باندھے جاتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ نے اسی میں نماز پڑھ لی اور صاف جنگل میں جوقریب ہی تھاجانے کی ضرورت نہ سمجھی پھر لوگوں کے دریافت کرنے پر بتلایا کہ مسئلہ کی رو سے یہ جگہ اور وہ صاف جنگل دونوں برابر ہیں اور اس قسم کے چوپایوں کالید اور گوبر نجس نہیں ہے۔

233.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے اور انہیں یہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو نبی ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں میں جانے کا حکم دیا کہ وہاں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعماال کریں، چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔ اور جب وہ صحت مند ہو گئے تو انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور جانور ہانک کر لے گئے۔ صبح کے وقت (رسول اللہ ﷺ کو جب) یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے، چنانچہ سورج بلند ہوتے ہی ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، اس کے بعد گرم سنگلاخ جگہ پر انہیں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابو قلابہ نے فرمایا: ان لوگوں نے چوری کی، خون ناحق کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ انھوں نے اعلانِ جنگ کیا (اس لیے یہ سزا تجویز کی گئی)۔