تشریح:
(1) اگر معاملے میں کوئی شرط فاسد ہو یا نقصان اور دھوکے کا باعث ہو تو ایسا معاملہ ناجائز قرار پاتا ہے جیسا کہ مزارعت کی مذکورہ صورت میں ہے کہ آپ زمین کا ایک حصہ مخصوص کر لیں اور دوسرا حصہ مزارع کے لیے مخصوص کر دیں، یعنی اس کی پیداوار وہ لے گا۔ یہ شرط جھگڑے کا باعث تھی کیونکہ بسا اوقات ایک حصے میں فصل ہوتی اور دوسرے حصے میں کچھ نہ ہوتا، جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بکثرت اس قسم کے مقدمات آنے لگے تو آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ (2) ہمارے نزدیک مزارعت کی شرائط یہ ہیں: ٭ معاملہ کرنے والے دونوں عاقل ہوں، اپنی مرضی سے یہ عقد کریں اور ان کا بالغ ہونا ضروری نہیں۔ ٭ جو زمین مزارعت کے لیے دی جائے وہ بنجر نہ ہو بلکہ قابل کاشت ہو کیونکہ بنجر زمین کا معاملہ دوسری نوعیت کا ہے۔ ٭ مالک اور مزارع دونوں اپنا اپنا حصہ طے کر لیں کہ کس کو کتنا ملے گا؟ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے لیے وزن یا کھیت مخصوص نہ کرے۔ ٭ زمین، ہل، بیل، بیج اور پانی کے بارے میں روز اول سے طے ہونا چاہیے کہ کون سی چیز کس کے ذمے ہو گی۔ ٭ زمین خالی کر کے کاشتکار کے حوالے کی جائے، کھڑی فصل والی زمین مزارعت کے لیے دینا محل نظر ہے۔ ٭ بٹائی پر دینے کے بعد فریقین کو طے شدہ حصے کے مطابق پیداوار میں شریک رہنا ہو گا۔