تشریح:
(1) اس حدیث سے پانی کی تقسیم کا جواز ثابت ہوا، نیز اس کے حصے کی ملکیت بھی جائز ہے بصورت دیگر اس لڑکے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم سے پہلے دائیں طرف والوں کا حق فائق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی لڑکے کو دیا اس سے پانی کا ہبہ کرنا بھی ثابت ہوا۔ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور برخوردار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے جو اتفاق سے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب بیٹھے تھے، باقی بزرگ حضرات بائیں طرف تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے باقی ماندہ مشروب تقسیم کرنا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونا تھی اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ نہ معلوم آپ کا بچا ہوا پانی کب اور کہاں نصیب ہو، اس بنا پر انہوں نے ایثار سے صاف انکار کر دیا۔