تشریح:
(1) نہریں دو قسم کی ہوتی ہیں: مملوک اور غیر مملوک۔ جو غیر مملوک ہیں ان کی پھر دو قسمیں ہیں: ایک بڑے دریا جیسے راوی اور چناب وغیرہ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے برساتی نالے جو بارش وغیرہ سے بہہ پڑتے ہیں۔ عنوان سے مراد برساتی اور قدرتی نالے ہیں۔ ان میں پانی محض اللہ کے فضل سے آتا ہے۔ اس میں کسی کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں عوام شریک ہوتے ہیں، بظاہر ان میں کسی کو کسی وقت رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے ان برساتی نالوں کے پانی کو ضرورت کے وقت روکنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ (2) واضح رہے کہ "حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے مشرق و مغرب میں زمین آتش فشانی لاوے پر مشتمل ہے۔ اسی علاقے کو "حرہ" کہتے ہیں۔ وہاں ایک برساتی نالا بہتا تھا جس سے حضرت زبیر ؓ اپنی زمین سیراب کرتے تھے۔ ان کا باغ بالائی علاقے میں تھا اور ایک انصاری کا باغ نشیبی علاقے میں، اس لیے حضرت زبیر ؓ پانی روک کر اپنے باغ کو سیراب کرتے تھے جبکہ انصاری کا مطالبہ تھا کہ پانی روکا نہ جائے بلکہ اسے جاری رکھا جائے۔ اس سے آگے وہی تفصیل ہے جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ بالائی علاقے پر واقع باغ کو سیراب کرنے کے لیے برساتی نالے کو روکا جا سکتا ہے تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ جو ندی نالے وادیوں سے نکلیں یا بارش آنے سے بہہ پڑیں ان کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی زمین اوپر ہو گی، اس کا حق ہے کہ پانی روک کر اپنی زمین کو سیراب کرے، اس قدر بندش کرے کہ پانی فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو پھر نیچے والے کے لیے اسے چھوڑ دے۔