تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے پہلے جو فیصلہ کیا وہ اس وقت کے رائج دستور کے مطابق تھا اور آپ نے درمیانی راستہ اختیار کیا جس میں پڑوسی کی رعایت ملحوظ تھی لیکن جب انصاری اس پر راضی نہ ہوا بلکہ اس نے برہمی کا اظہار کیا تو آپ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق عطا فرمایا۔ (2) جب لوگوں نے دیکھا کہ منڈیر اور دیوار کا طول و عرض مختلف ہوتا ہے تو پیش آمدہ واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے ٹخنوں تک کی مقدار مقرر کر دی۔ مقصد یہ ہے کہ بلند کھیت والے کا پانی میں اتنا حق ہے کہ وہ فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو، پھر اس پانی کو نیچے والے کے لیے چھوڑے گا، پانی اسی ترتیب سے آگے چلے گا یہاں تک کہ وہ ختم ہو جائے۔ گویا قانونی طور پر اصول یہ قرار پایا کہ کھیت میں ٹخنوں تک پانی کا بھر جانا اس کا سیراب ہونا ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کر دینا ہی ایمان کی علامت ہے۔ اگر اس کے متعلق ذرہ بھر بھی دل میں تنگی محسوس کی تو ایمان کی خیر نہیں، یعنی اس کا دل ایمان سے فارغ ہے۔