تشریح:
(1) معاملہ عدالت میں پیش ہو گا اور عدالت تحقیق کرنے کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی اس کا مال ہے تو اسے حق دار قرار دے کر وہ مال اس کے حوالے کر دے گی۔ وہ ازخود اس پر قبضہ کرنے کا مجاز نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں: بیع کی صورت یہ ہے کہ کسی نے اپنا مال ادھار پر کسی کو فروخت کیا، اس کے بعد خریدار مفلس ہو گیا تو بائع نے اپنی فروخت کردہ چیز بعینہٖ خریدار کے پاس پائی تو وہ دوسرے قرض خواہوں سے اس کا زیادہ حق دار ہے۔ قرض کی صورت یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کو قرض دیا، پھر مقروض دیوالیہ ہو گیا تو اگر قرض خواہ اپنا مال بعینہٖ مقروض کے پاس پائے تو وہ دوسرے قرض خواہوں کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔ امانت کی صورت یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کے پاس کوئی امانت رکھی پھر امین مفلس ہو گیا تو امانت دار اس امانت کا زیادہ حق دار ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ بیع اور قرض میں کچھ فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ (3) یہ حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی دوسرے سے کوئی چیز خریدی اور اس پر قبضہ کر لیا لیکن ابھی ادا نہیں کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا، اگر وہ خرید کردہ چیز بعینہٖ اس کے پاس موجود ہے تو اس کا حق دار فروخت کرنے والا ہے، دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہو گا اور اگر وہ چیز تبدیل ہو گئی: مثلاً: سونا خریدا تھا تو اس نے اس کا زیور بنا ڈالا، اس صورت میں فروخت کنندہ اکیلا حق دار نہیں ہو گا بلکہ سب قرض خواہ اس میں برابر کے شریک ہوں گے، عدل و انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے۔ امام شافعی ؒ کا فتویٰ بھی اس کے مطابق ہے۔