قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ (بَابُ مَا يُنْهَى عَنْ إِضَاعَةِ المَالِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ} [البقرة: 205] وَ {لاَ يُصْلِحُ [ص:120] عَمَلَ المُفْسِدِينَ} [يونس: 81] وَقَالَ فِي قَوْلِهِ: (أَصَلَوَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ) وَقَالَ: {وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ} [النساء: 5] «وَالحَجْرِ فِي ذَلِكَ، وَمَا يُنْهَى عَنِ الخِدَاعِ»

2407. حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أُخْدَعُ فِي الْبُيُوعِ فَقَالَ إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ فَكَانَ الرَّجُلُ يَقُولُهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا ( اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ یونس میں کہ ) اور اللہ فسادیوں کا منصوبہ چلنے نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ ہود میں ) فرمایا ہے کیا تمہاری نماز تمہیں یہ بتاتی ہے کہ جسے ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں۔ یا اپنے مال میں اپنی طبیعت کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ نساءمیں ) ارشاد فرمایا اپنا روپیہ بے وقوفوں کے ہاتھ میں مت دو اور بے وقوفی کی حالت میں حجر کرنا۔ تشریح : بے وقوفوں سے مراد نادان ہیں جو مال کو سنبھال نہ سکیں بلکہ اس کو تباہ اور برباد کردیں جیسے عورت، بچے، کم عقل جوان بوڑھے وغیرہ۔ حجر کا معنی لغت میں روکنا، منع کرنا، اور شرع میں اس کوکہتے ہیں کہ حاکم اسلام کسی شخص کو اس کے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دے۔ اور یہ دو وجہ سے ہوتا ہے یا تو وہ شخص بے وقوف ہو، اپنا مال تباہ کرتا ہو یا دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ مثلاً مدیون مفلس پر حجر کرنا، قرض خواہوں کے حقوق بچانے کے لیے، یا راہن پر یا مریض پر مرتہن اور وارث کا حق بچانے کے لیے۔ اس روکنے کو شرعی اصطلاح میں حجر کہا جاتا ہے۔ آیات قرآنی سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ حلال طور پر کمایا ہوا مال بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا ضائع کرنا یا ایسے نادانوں کو اسے سونپنا جو اس کی حفاظت نہ کرسکیں باوجود یہ کہ وہ اس کے حق دار ہیں۔ پھر بھی ان کو ان کے گزارے سے زیادہ دینا اس مال کو گویا ضائع کرنا ہے جو کسی طرح جائز نہ ہوگا۔

2407.

حضرت عبد اللہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں لین دین میں بہت دھوکا کھا جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تم کسی سے معاملہ کرو تو کہہ دیا کرو کہ کوئی دھوکا نہیں ہوگا۔‘‘ چنانچہ وہ شخص معاملہ کرتے وقت یہ (الفاظ)کہہ دیتا تھا۔