تشریح:
(1) اس عنوان کے دو جز ہیں: پہلا یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کر کے دوسری جگہ لے جانا۔ اگر ملزم کسی جگہ ہو اور اس کے غائب ہونے یا بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے گرفتار کر کے دوسری جگہ منتقل کرنے یا اس کی نگرانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جب ایک شخص کی قراءت سنی جو اس طریقے سے مختلف تھی جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی تو اسے پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔ جب قرآن کریم بزعم خویش غلط پڑھنے پر پکڑ کے لے جانا درست ہے تو اپنے حق کے بدلے میں پکڑ کر لے جانے میں کیا حرج ہے؟ جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے دوسرے کی حیثیت بھی وہی ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں اسے ہاتھ سے پکڑنے کا ذکر ہے، امام بخاری ؒ نے اسی سے اپنے عنوان کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پایا جاتا ہے۔ اس حدیث کے آخر میں اختلاف سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ طبعی اختلاف قابل مذمت نہیں بلکہ وہ اختلاف باعث ہلاکت ہے جو موجب افتراق و فساد ہو۔ اس میں شک نہیں کہ تفرقہ امت کو کمزور کرنے والی بیماری ہے جس سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔