تشریح:
(1) پہلی دو روایات میں تھا کہ ایک یہودی کے دعویٰ کرنے پر مسلمان کی سرزنش کی گئی، اس طرح عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، اس روایت میں ایک جرم کی پاداش میں یہودی کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ اسلامی عدالت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بےجا کسی کی طرف داری کرے یا بلاوجہ کسی کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قاتل کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا ہو لیکن کچھ ائمۂ کرام کا موقف ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا لیکن ان کا یہ موقف حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے: ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا جس نے چاندی کے کڑے پہن رکھے تھے۔ یہودی نے لڑکی کا سر پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور اس کے کڑے اتار لیے، چنانچہ سزا کے طور پر یہودی کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا۔ واللہ أعلم