تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ آپس میں سخت کلامی سے پیش آتے ہیں اور عدالت ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی، تو ایسا ممکن ہے بشرطیکہ وہ گفتگو فحش کلامی اور کردار کشی پر مبنی نہ ہو، ہاں اگر کوئی اپنی گفتگو سے عدالت کا احترام مجروح کرتا ہے تو اس کا نوٹس لیا جائے گا۔ اس حدیث کے مطابق حضرت اشعث ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہودی کے متعلق یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم اٹھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ چونکہ حضرت اشعث ؓ اس یہودی کے کردار سے واقف تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ (2) عدالت کے سامنے ایسا بیان جس پر کوئی تعزیر یا حد واجب نہ ہو، اسے حرام غیبت میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے مدعا علیہ کی کردار کشی ہی پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباري:93/5)