تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر حضرت ہشام ؓ کی قراءت کا نوٹس لیا، بلکہ عملی طور پر ان کے گلے میں چادر ڈال کر انہیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا اور ان کے متعلق بیان دیا کہ انہوں نے قرآن اس طریقے کے خلاف پڑھا ہے جو آپ نے مجھے سکھایا تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ صحیح صورت حال سے انہیں آگاہ کر دیا۔ (فتح الباري:94/5) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ دینی معاملات میں بہت سخت تھے اور ان کے بعد حضرت ہشام ؓ سب سے زیادہ سخت تھے، چنانچہ حضرت عمر ؓ جب کوئی مکروہ اور ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: جب تک میں اور ہشام بن حکیم زندہ ہیں اس قسم کی مکروہ چیز دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ (عمدة القاري:148/9)