تشریح:
(1) اگرچہ اس روایت میں ’’امانت‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم پہلے وہ حدیث بیان ہو چکی ہے کہ گمشدہ چیز اس کے پاس امانت ہو گی۔ (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث:2428) وہاں راوئ حدیث نے شک کا اظہار کیا تھا کہ یہ الفاظ میرے شیخ کی طرف سے ہیں یا حدیث کا حصہ ہیں، اس کے متعلق مجھے پوری طرح علم نہیں ہے لیکن صحیح مسلم میں یہ الفاظ بغیر کسی شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے حصے کے طور پر بیان ہوئے ہیں، (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4502(1722)) نیز اس میں صراحت ہے کہ اگر گمشدہ چیز کا مالک اور طلبگار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنی ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ کا مسلک یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ چیز اٹھانے والے سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ امانت کے ضیاع پر تاوان نہیں دیا جاتا، ہاں اس نے استعمال کر لی ہے تو اس کا بدل دینا ہو گا۔ (فتح الباري:114/5) اس صورت میں گمشدہ چیز کا بدل واپس کرنا احسان نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے۔