تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مظلوم کو مل جائے وہ اپنے مال کی حقدار کے مطابق اس سے لے سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے مسلک کی ترجیح کے لیے امام ابن سیرین ؒ کا قول بھی حسب عادت ذکر کیا ہے۔ ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جب کسی کو قاضی کے ذریعے سے اپنا حق لینا ممکن نہ ہو اور انکار کی صورت میں صاحب حق کے پاس گواہ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طریقے سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو معروف اور دستور کے مطابق ابو سفیان ؓ کے مال سے بچوں کا خرچہ لینے کی اجازت دی۔ (2) دستور کے مطابق ہونے کا تعلق ترازو سے نہیں بلکہ جسے سمجھ دار آدمی کہے کہ اتنا ہے تو وہ لے لینا چاہیے۔ وہ معروف کے مطابق ہو گا۔ اس کی آڑ میں شاہ خرچیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔