تشریح:
(1) اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ عین راستے کے درمیان میں کنواں کھود دیں بلکہ راستے میں اس کے دائیں بائیں ہو۔ اس وقت خدمتِ خلق کے لیے کچے کنویں راستوں کے کناروں پر بنائے جاتے تھے۔ ان میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بھی ہوتی تھیں۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ راستے میں کنواں بنایا جا سکتا ہے تاکہ آنے جانے والے مسافر اس سے پانی پئیں اور اپنی پیاس بجھائیں بشرطیکہ کسی کے لیے نقصان یا تکلیف کا باعث نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، مسلمان ہو یا کافر پانی پلانے کا اہتمام کرنا بہت ثواب کا کام ہے حتیٰ کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ اگر وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔