تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے جن کا ذکر اپنے اپنے مقام پر آئے گا۔ اس مقام پر اسے پیش کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ مکان پر بالاخانہ تعمیر کرنا جائز ہے بشرطیکہ ہمسایوں کی پردہ دری نہ ہوتی ہو۔ اگر اس سے ان کی بے پردگی ہو تو جائز نہیں۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے بالاخانے کا ذکر ہے، آپ کی رہائش کے علاوہ، زکاۃ وغیرہ کا جو مال آتا وہ بھی اسی میں رکھا جاتا تھا۔ دوسری روایات میں ہے کہ اس پر چڑھنے کے لیے کھجور کے تنوں کے سیڑھیاں تھی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:387) وہاں نگرانی کے لیے ایک حبشی غلام بھی تعینات تھا۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ اس کی نگرانی حضرت بلال ؒ کے ذمے تھی۔ (2) علامہ عینى ؒ نے لکھا ہے کہ بالاخانہ چار قسم کا ہوتا ہے: ٭ مکان کی چھت پر ہو اور اس سے تاک جھانک ممکن ہو۔ اس قسم کا بالاخانہ ناجائز ہے۔ ٭ مکان کی چھت پر ہو لیکن اس سے جھانک نہ پڑتی ہو۔ اس کی دیواریں اونچی ہوں۔ ایسا بالاخانہ بنانا جائز ہے۔ ٭ وہ بلند مکان جو چھت کے بجائے مستقل ہو، اس سے پڑوسیوں کی بے پردگی ہوتی ہو۔ یہ بھی ناجائز ہے۔ ٭ ایسا اونچا مکان جو چھت پر نہ ہو لیکن اس میں تاک جھانک کا سدباب ہو، ایسا اونچا مکان تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر پڑوسی کو نقصان پہنچنے کا واضح امکان ہو تو درست نہیں بصورت دیگر بالاخانہ جائز ہے۔ (عمدة القاري:223/9)