قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ (بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّيَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَيْرِ المُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2468. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فَحَجَجْتُ مَعَه فَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ حَتَّى جَاءَ فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنْ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فَقَالَ وَا عَجَبِي لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ الْأَمْرِ وَغَيْرِهِ وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَهُ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الْأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ فَصِحْتُ عَلَى امْرَأَتِي فَرَاجَعَتْنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ليُرَاجِعْنَهُ وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَأَفْزَعَنِي فَقُلْتُ خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِيمٍ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَيْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَقَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ خَابَتْ وَخَسِرَتْ أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِينَ لَا تَسْتَكْثِرِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْءٍ وَلَا تَهْجُرِيهِ وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكَ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ وَكُنَّا تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ النِّعَالَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا وَقَالَ أَنَائِمٌ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ وَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ مَا هُوَ أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ قَالَ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ هَذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ فَجَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَصَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي قُلْتُ مَا يُبْكِيكِ أَوَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ ذَا فِي الْمَشْرُبَةِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ الْمِنْبَرَ فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي هُوَ فِيهَا فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَهُ أَسْوَدَ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ فَذَكَرَ مِثْلَهُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي قَالَ أَذِنَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ طَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَيَّ فَقَالَ لَا ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَنِي وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى قَوْمٍ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَذَكَرَهُ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قُلْتُ لَوْ رَأَيْتَنِي وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ ثُمَّ رَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلَاثَةٍ فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ وَكَانَ قَدْ قَالَ مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا وَإِنَّا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ وَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّخْيِيرِ فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ فَقَالَ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا وَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِكَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمًا قُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ

مترجم:

2468.

حضرت عبد اللہ بن عباس  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا : میری یہ خواہش رہی کہ میں حضرت عمر  ؓ سے دریافت کروں کہ نبی ﷺ کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ اور رجوع کرو (تو بہترہے) پس تمھارے دل (حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔‘‘ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کے ہمراہ حج کو گیا تو وہ (قضائے حاجت کے لیے) راستے سے ایک طرف ہٹے۔ میں بھی پانی کا مشکیزہ لیے ان کے ہمراہ ہو گیا، چنانچہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر مشکیزے سےپانی ڈالا۔ انھوں نے وضوکیاتو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین ! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے وہ کون سی دو عورتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اگر تم تو بہ کرو(تو تمھارے لیے بہتر ہے) پس تمھارے دل( حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔‘‘ حضرت عمر فاروق  ؓ نے فرمایا: ابن عباس  ؓ ! تم پر تعجب ہے۔ وہ حضرت عائشہ  ؓ اور حضرت حفصہ  ؓ ہیں۔ پھر حضرت فاروق  ؓ نے پورا واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے فرمایا: میں اور میرا ایک انصاری ہمسایہ بنو امیہ بن زید کے محلے میں رہتے تھے۔۔۔ یہ قبیلہ عوالی مدینہ میں رہتا تھا۔۔۔ ہم نبی ﷺ کے پاس باری باری آیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا اور دوسرے دن میں حاضر ہوتا۔ جب میں آتا تو اس دن کے جملہ احکام وحی اس کو بتاتا اور جب وہ آتا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ قریشی لوگ عورتوں کو اپنے دباؤ میں رکھتے تھے لیکن جب ہم انصار میں آئے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب رہتی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتیں بھی ان کے طور طریقے اختیار کرنے لگیں۔ ایک روز ایسا ہوا کہ میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نےفوراً مجھے جواب دیا۔ اس کی بابت مجھے بری لگی تو اس نے کہا: اگر میں نے تمھاری بات کا جواب دیا ہے تو برا کیوں مناتے ہو؟ اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں۔ ان میں سے کوئی کوئی ایسی بھی ہے جو دن سے لے کر رات تک آپ کو چھوڑے رہتی ہے۔ مجھے اس بات سے بہت گھبراہٹ ہوئی میں نے دل میں کہا: ان میں سے جس نے ایسا کیا وہ عظیم خسارے میں ہے۔ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور (اپنی بیٹی )حضرت حفصہ  ؓ کے پاس آیا اور اس سے کہا: حفصہ! کیا تم میں سے کوئی دن سے لے کر رات تک رسول اللہ ﷺ سے روٹھے رہتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں!میں نے کہا: وہ تونامراد رہی اور خسارے میں پڑگئی۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی ناراضی کے باعث اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے تو تم تباہ ہو جاؤ(دیکھو !)رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نہ مانگو اور آپ کو جواب بھی نہ دیا کرو اور آپ سے خفا نہ ہوا کرو۔ جو ضرورت ہو وہ مجھ سے لو۔ اور یہ بات بھی تمھیں دھوکے میں نہ رکھے کہ تمھاری سوکن تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کی زیادہ چہیتی ہے۔ انھوں نے حضرت عائشہ  ؓ کو مراد لیا۔ حضرت عمر  ؓ نے کہا: ہم دونوں آپس میں اس طرح کی باتیں بھی کیا کرتے تھے کہ غسانی لوگ ہم پر چڑھائی کرنے کے لیے گھوڑوں کی فعل بندی (جنگ کی تیاری)کر رہے ہیں۔ ہوایوں کہ میرا ساتھی اپنی باری کے دن شہر گیا اور عشاء کے وقت لوٹا تو میرا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا اور کہا: کیا وہ یہاں (گھر میں) ہیں؟ میں نے یہ سنا تو بہت گھبرایا اور باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ایک بہت بڑا حادثہ ہوا ہے۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ کیا غسان کے لوگوں نے حملہ کردیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس سے بھی بڑا واقعہ اور لمبی بات ہے رسول ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ کی قسمت پھوٹ گئی۔ میں پہلے ہی خیال کرتا تھا کہ عنقریب ایسا ہو جائے گا۔ میں نے اپنے کپڑے پہنے اور نماز فجر نبی ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ فراغت کے بعد آپ بالا خانے میں تشریف لے گئے اور وہاں تنہا بیٹھ رہے، چنانچہ میں حضرت حفصہ  ؓ کے پاس گیا، دیکھا کہ وہ رورہی ہیں۔ میں نے پوچھا : کیوں رورہی ہو؟ کیا میں نے تمھیں اس انجام سے آگاہ نہیں کیا تھا؟کیا تمھیں رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی؟ اس نے کہا: مجھے معلوم نہیں آپ ﷺ اس بالاخانے میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں باہر نکل کر مسجد میں منبر کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں بھی تھوڑی دیر کے لیے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر وہ پریشانی مجھ پر غالب آئی جو مجھے لاحق تھی۔ میں اس بالاخانے کی طرف گیا جہاں آپ تشریف فرماتھے۔ وہاں میں نے آپ کے سیاہ فام غلام سے کہا: عمر کے لیے اجازت حاصل کرو۔ وہ اندر گیا، اس نے نبی ﷺ سے بات کی، پھر باہر نکلا اور کہنے لگا: میں نے آپ ﷺ سے تمھارا ذکر کیا ہے لیکن آپ خاموش رہے ہیں، چنانچہ میں واپس آکر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے پھر مجھے اس بات نے بے چین کردیا جس کے لیے میں آیا تھا۔ میں (دوبارہ) غلام کے پاس آیا اور کہا: عمر کے لیے اجازت حاصل کرو۔ لیکن معاملہ پہلے کی طرح ہوا۔ میں پھر منبر کے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر مجھے اس بات نے بے چین کردیا۔ جو میرے دل میں تھی۔ میں پھر غلام کے پاس آیا اور کہا: عمرکے لیے اجازت حاصل کرو۔ پھر معاملہ پہلے کی طرح ہوا۔ جب میں واپس ہونے لگا تو غلام نے مجھے آواز دی اور کہا: تمھیں رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی ہے۔ یہ سن کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ آپ کے جسم اور چٹائی کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے۔ اور کھجور کے پتوں کے نشانات آپ کے پہلو پر نمایاں ہیں آپ ایک تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں جس میں کھجورکے پتوں کا بھراؤ ہے، میں نے سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کیاِ: آپ نے ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے میری طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں کھڑا کھڑاآپ کا موڈ بھانپ رہا تھا کہ کیسا ہے؟میں نے دل بہلاوے کے طور پر کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں کو دباؤ میں رکھتے تھے اور جب ایسے لوگوں میں آئے جن کی عورتیں ان پر غالب ہیں میرا اتنا کہنا تھا کہ نبی ﷺ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا: کاش آپ مجھے اس وقت دیکھتے جب حفصہ  ؓ کےپاس گیا اور میں نے اسے کہا: تمھیں یہ بات دھوکے میں نہ رکھے کہ تمھاری سوکن تم سے زیادہ خوبصورت اور نبی ﷺ کو زیادہ محبوب ہے۔ میں نے حضرت عائشہ  ؓ کو مراد لیا تھا۔ تب بھی آپ مسکرادیے۔ جب میں نے دیکھا کہ آپ مسکرا رہے ہیں تو میں بیٹھ گیا۔ پھر میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اللہ کی قسم!مجھے تین کچی کھالوں کے علاوہ وہاں کوئی چیز نظر نہ آئی۔ میں عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت پر وسعت کرےکیونکہ فارس اور روم کے لوگوں پر اللہ نے فراخی کی ہے اور انھیں خوب دنیا ملی، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ اس وقت آپ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب  ؓ ! ایسی باتیں کرتے ہو کیا تمھیں شک ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی تمام لذتیں اسی دنیا کی زندگی میں دے دی گئی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میرے لیے استغفار فرمائیں۔ نبی ﷺ نے گوشہ تنہائی اس وجہ سے اختیار کیا تھا کہ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ  ؓ سے راز ظاہر کردیا تھا اور اسی سلسلے میں آپ نے عہد کیا تھا: ’’میں ان سے ایک مہینے تک ملاقات نہیں کروں گا۔‘‘ کیونکہ آپ کو ان پر سخت غصہ آیا تھا جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے آپ کو عتاب فرمایا۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ ﷺ حضرت عائشہ  ؓ کے پاس گئے اور وہاں سے از سر نو عائلی زندگی کا آغاز فرمایا۔ حضرت عائشہ  ؓ نے آپ سے عرض کیا: آپ نے تو ایک مہینے تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم اٹھائی تھی، ابھی تو انتیس دن گزرے ہیں، میں انھیں شمار کرتی رہی ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ مہینہ انتیس دن کا تھا۔ حضرت عائشہ  ؓ نے فرمایا: جب آیت تخییر نازل ہوئی تو آپ ﷺ پہلے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’میں تم سے ایک بات کہہ رہا ہوں اور تم پر کوئی حرج نہیں ہوگا اگر تم جلدی نہ کرو حتی کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔‘‘ اُم المومنین حضرت عائشہ  ؓ ! نے عرض کیا: میں جانتی ہوں کہ میرے والدین آپ کے فراق کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ پھر آپ نےکہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے۔۔۔ بہت بڑا (اجر تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘)میں نے عرض کیا: آیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور دار آخرت ہی کو پسند کرتی ہوں۔ پھر آپ نے اپنی سب بیویوں کو اختیار دیا تو سب نے وہی جواب دیا۔ جو اُم المومنین حضرت عائشہ  ؓ نے دیا تھا۔