تشریح:
1۔ معلوم ہوا کہ ادعیہ مسنونہ اور اذکار ماثورہ میں جو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں ان میں تصرف درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے اللہ کی طرف سے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ اس جامیعت وخصومیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء بن عازب ؓ کو (نبيك) کے بجائے (رسولك) پڑھنے سے اس بنا پر منع فرمایا کہ نبی میں جو جامعیت ہے وہ رسول میں نہیں، کیونکہ رسول کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے، حالانکہ وہ نبی نہیں، نیز ان دعائیہ کلمات میں نبوت ورسالت کے دونوں اوصاف کا ذکر ہے، جبکہ (رسولك) کہنے سے صرف ایک وصف کا ذکر ہوتا ہے۔ (فتح الباري:466/1) اس حدیث سے قبل از نیند باوضو ہونے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز واضح رہے کہ یہ وضو نماز کا نہیں بلکہ اسے وضوءِ احداث کہتے ہیں۔ حدیث میں ہر قسم کے وضو کو"شطر الإیمان" کا درجہ دیاگیا ہے۔ اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص پہلے سے باوضو ہوتوکیا وہ بھی سونے کے وقت دوبارہ وضو کرے؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بظاہر حدیث الباب سے تجدید وضو کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، یعنی اگرچہ وہ طہارت سے ہو پھر بھی وضو کرے، تاہم احتمال اس امر کا بھی ہے کہ نیند کے وقت امر وضو حالتِ حدث ہی کے ساتھ خاص ہو۔ (فتح الباري:465/1) علامہ عینی کی رائے یہ ہے کہ اگر پہلے سے باوضو ہے تو وہ پہلا وضو ہی کافی ہے، کیونکہ مقصود طہارت کی حالت میں سونا ہے، مبادا اگررات کو موت آجائے تو بے طہارت مرے، نیز اس وضو کی برکت سے اس کو اچھے اور سچے خواب نظرآئیں گے اور وہ شیطانی اثرات سے بھی محفوظ رہے گا۔ (عمدة القاري:698/2) 3۔ دائیں جانب کو ترجیح دینا تمام مواقع میں شریعت کو زیادہ پسند ہے، اسی طرح سوتے وقت دائیں کروٹ پسند کی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے دل معلق رہتا ہے۔ نیند کا استغراق نہیں ہوتا، اس صورت میں انسان سہولت اور عجلت سے بیدار ہوسکتا ہے۔ (الموت على الفِطْرَةِ) کا مطلب یہ ہے کہ جس فطری حالت میں انسان گناہوں کے بغیر دنیا میں آیا تھا، اسی حالت پر گناہوں کی آلائش کے بغیر ہی واپس لوٹ جائے گا۔ واللہ أعلم۔ 4 ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر کتاب الوضو کو اس لیے ختم کیا ہے کہ یہ انسان کے زمانہ بیداری کا آخری وضو ہوتا ہے، نیز حدیث کے مطابق کلمات مذکورہ کو بیداری کے آخری کلمات قراردیا ہے، لہذا اس سے امام بخاری ؒ نے ختم کتاب کی طرف اشارہ کردیا۔ (فتح الباري:466/1) امام بخاری ؒ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور موت کی یاد دہانی کراتے ہیں، چنانچہ یہاں بھی (فَإِنْ مِتَّ) کے الفاظ سے وضاحت کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کردیا۔