Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
73. Chapter: It is unlawful to perform ablution with Nabidh (water in which dates or grapes etc, are soaked and is not yet fermented) or with any other intoxicant
باب:نیند سے اور کسی نشہ والی چیز سے وضو جائز نہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: It is unlawful to perform ablution with Nabidh (water in which dates or grapes etc, are soaked and is not yet fermented) or with any other intoxicant)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ نے اسے مکروہ کہا اور عطاء کہتے ہیں کہ نبیذ اور دودھ سے وضو کرنے کے مقابلے میں مجھے تیمم کرنا زیادہ پسند ہے۔
247.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں، آپ نے فرمایا: ’’ہر وہ مشروب جو نشہ آور ہو، حرام ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ پانی میں شامل ہونے والی چیزیں دوطرح کی ہوتی ہیں: ناپاک اور پاک۔ پھر پاک کی دوقسمیں ہیں: ایک وہ جو پاک ہونے کے باوجود قابل نفرت ہوتی ہیں، جیسے تھوک یا بلغم وغیرہ۔ دوسری وہ جو قابل نفرت نہیں ہوتیں، جیسے کھجور وغیرہ۔ امام بخاری ؒ کا فیصلہ ہے کہ اگر پانی میں کوئی ناپاک چیز شامل ہوگئی اور اس نے تغیر پیدا کردیا تو اس سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ اور پاک مگر قابل نفرت چیزوں کے متعلق اس سے پہلے باب میں وضاحت کرآئے ہیں۔ اب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر پانی میں کوئی چیز مل جائے جوپاک ہونے کے ساتھ ساتھ قابل نفرت نہ ہو اور اس نے پانی کے تینوں اوصاف میں سے کوئی وصف بدل دیا اس پر پانی کا اطلاق نہ ہوسکے تو اس سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ اگر پانی میں ملنے والی کسی چیز سے نہ پانی کا نام بدلا اور نہ اس کے اوصاف ہی میں کوئی تبدیلی آئی، ایسی صورت میں اس سے وضو کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے حدیث عائشہ ؓ کو بیان فرمایا ہے کہ ہروہ مشروب جو نشہ آور ہوحرام ہے۔ وضو ایک عبادت ہے جس میں کسی حرام چیز کو استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہذا نشہ آور چیز سے وضو کرنا حرام ہے۔ امام بخاری ؒ کا استدلال بایں طور ہے کہ سکر(نشہ آورچیز) میں تعمیم ہے: سکر بالفعل ہو، جیسے شراب وغیرہ یا بالقوہ ہو، جیسے نبیذ وغیرہ، ان سے وضو کرنا درست نہیں ہے۔ نبیذ میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ اگر سے زیادہ دیر تک رکھا جائے یا اسے زیادہ جوش دیا جائےتو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ نبیذ تیار ہوجانے کے بعد اس سے لفظ’’پانی‘‘ زائل ہوجاتا ہے، یعنی اس پر پانی کالفظ نہیں بولا جاتا جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾’’جب تم پانی نہ پاؤ تو پاکیزہ مٹی سے تیمم کرلو۔‘‘(المائدہ۔5۔6) امام بخاری ؒ نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبیذ کی موجودگی میں تیمم تو ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس پانی نہیں۔ واضح رہے کہ جن روایات میں نبیذ سے وضو کرنے کی اجازت مروی ہے وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا انھیں بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ 3۔ امام تدبر نے اس مقام پر بھی تدبر سے کام نہیں لیا اور جھٹ سے امام بخاری ؒ پراعتراض جڑ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’معلوم نہیں اس باب کے باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟ پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے وضو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘(تدبرحديث:334/1) فقہائے احناف نے نبیذ سے وضو کرنے کے لیے ا پنی تمام ترعلمی اورفکری توانائیوں کو صرف کرڈالا ہے۔ فقہ کی ہرکتاب میں اسے بڑی شدومد سے بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ ان حضرات کی یہاں تردید فرمارہے ہیں، لیکن اصلاحی صاحب اس سے بے خبر ہیں نہ معلوم کیوں؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
244
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
242
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
242
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
242
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
نبیذ یہ ہے کہ پانی میں کھجوریں اس وقت تک ڈالے رکھیں حتیٰ کہ اس میں حلاوت پیدا ہوجائے۔اس کا نوش کرنا جائز ہے۔اوراگر زیادہ دیر تک کھجوریں پڑی رہیں یا پانی میں کھجوریں ڈال کر اسے جوش دیاجائے تاآنکہ اس میں سرور کی کیفیت پیدا ہوجائے تو اس کا نوش کرنا منع ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ،جب پانی نہ ملے تو نبیذ سے وضو کرنے کو جائز کہا ہے جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک نبیذ سے وضو جائز نہیں،بلکہ اس کی موجودگی میں تیمم کرنا تجویز کیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس کے اثر کو ابن ابی شیبہ(111/1) وغیرہ نے موصولاً بیان کیا ہے۔کہ نبیذ سے وضو نہ کیا جائے۔اور ابوعبید نے ایک دوسری سند سے بیان کیاہے کہ اس سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کراہت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے۔ابوخلدہ کہتے ہیں:میں نے ابوالعالیہ سے دریافت کیا کہ ایک آدمی بحالت جنابت ہے لیکن اسے پانی میسر نہیں،کیا وہ نبیذ سے غسل کرسکتا ہے تو آپ نے فرمایا:نہیں۔( سنن ابی داود الطھارہ حدیث 87۔) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔اسی طرح عطا ابن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کے اثر کو بھی ابوداود نے موصولاًبیان کیا ہے۔( سنن ابی داود الطھارہ حدیث 86۔ ) امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہرقسم کے نبیذ سے وضو جائز ہے۔حضرت عکرمہ سے بھی اس کاجواز منقول ہے۔( فتح الباری 460/1۔)
حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ نے اسے مکروہ کہا اور عطاء کہتے ہیں کہ نبیذ اور دودھ سے وضو کرنے کے مقابلے میں مجھے تیمم کرنا زیادہ پسند ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں، آپ نے فرمایا: ’’ہر وہ مشروب جو نشہ آور ہو، حرام ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ پانی میں شامل ہونے والی چیزیں دوطرح کی ہوتی ہیں: ناپاک اور پاک۔ پھر پاک کی دوقسمیں ہیں: ایک وہ جو پاک ہونے کے باوجود قابل نفرت ہوتی ہیں، جیسے تھوک یا بلغم وغیرہ۔ دوسری وہ جو قابل نفرت نہیں ہوتیں، جیسے کھجور وغیرہ۔ امام بخاری ؒ کا فیصلہ ہے کہ اگر پانی میں کوئی ناپاک چیز شامل ہوگئی اور اس نے تغیر پیدا کردیا تو اس سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ اور پاک مگر قابل نفرت چیزوں کے متعلق اس سے پہلے باب میں وضاحت کرآئے ہیں۔ اب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر پانی میں کوئی چیز مل جائے جوپاک ہونے کے ساتھ ساتھ قابل نفرت نہ ہو اور اس نے پانی کے تینوں اوصاف میں سے کوئی وصف بدل دیا اس پر پانی کا اطلاق نہ ہوسکے تو اس سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ اگر پانی میں ملنے والی کسی چیز سے نہ پانی کا نام بدلا اور نہ اس کے اوصاف ہی میں کوئی تبدیلی آئی، ایسی صورت میں اس سے وضو کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے حدیث عائشہ ؓ کو بیان فرمایا ہے کہ ہروہ مشروب جو نشہ آور ہوحرام ہے۔ وضو ایک عبادت ہے جس میں کسی حرام چیز کو استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہذا نشہ آور چیز سے وضو کرنا حرام ہے۔ امام بخاری ؒ کا استدلال بایں طور ہے کہ سکر(نشہ آورچیز) میں تعمیم ہے: سکر بالفعل ہو، جیسے شراب وغیرہ یا بالقوہ ہو، جیسے نبیذ وغیرہ، ان سے وضو کرنا درست نہیں ہے۔ نبیذ میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ اگر سے زیادہ دیر تک رکھا جائے یا اسے زیادہ جوش دیا جائےتو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ نبیذ تیار ہوجانے کے بعد اس سے لفظ’’پانی‘‘ زائل ہوجاتا ہے، یعنی اس پر پانی کالفظ نہیں بولا جاتا جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾’’جب تم پانی نہ پاؤ تو پاکیزہ مٹی سے تیمم کرلو۔‘‘(المائدہ۔5۔6) امام بخاری ؒ نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبیذ کی موجودگی میں تیمم تو ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس پانی نہیں۔ واضح رہے کہ جن روایات میں نبیذ سے وضو کرنے کی اجازت مروی ہے وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا انھیں بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ 3۔ امام تدبر نے اس مقام پر بھی تدبر سے کام نہیں لیا اور جھٹ سے امام بخاری ؒ پراعتراض جڑ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’معلوم نہیں اس باب کے باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟ پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے وضو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘(تدبرحديث:334/1) فقہائے احناف نے نبیذ سے وضو کرنے کے لیے ا پنی تمام ترعلمی اورفکری توانائیوں کو صرف کرڈالا ہے۔ فقہ کی ہرکتاب میں اسے بڑی شدومد سے بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ ان حضرات کی یہاں تردید فرمارہے ہیں، لیکن اصلاحی صاحب اس سے بے خبر ہیں نہ معلوم کیوں؟
ترجمۃ الباب:
امام حسن اور ابوالعالیہ نے ایسی چیزوں سے وضو کرنے کو مکروہ خیال کیا ہے۔ حضرت عطاء نے کہا: میرے نزدیک نبیذ اور دودھ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کر لینا بہتر ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زہری نے ابوسلمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ حضرت عائشہ ؓ سے وہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پینے کی ہر وہ چیز جو نشہ لانے والی ہو حرام ہے۔
حدیث حاشیہ:
نبیذ کھجور کے شربت کو کہتے ہیں جو میٹھا ہو اور اس میں نشہ نہ آیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے اس سے وضو جائز رکھا ہے، جب پانی نہ ملے اور امام شافعی وامام احمد ودیگر جملہ ائمہ اہل حدیث کے نزدیک نبیذ سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ حسن کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور ابوالعالیہ کے اثر کو دارقطنی اور عطاء کے اثر کو ابوداؤد نے موصولاً روایت کیا ہے۔ حدیث الباب کا مقصد یہ ہے کہ نشہ آور چیز حرام ہوئی تو اس سے وضو کیوں کر جائز ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) said, "All drinks that produce intoxication are Haram (forbidden to drink).