باب: اس بارے میں کہ عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Washing blood by a women off her father's face)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوالعالیہ نے ( اپنے لڑکوں سے ) کہا کہ میرے پیروں پر مالش کرو کیونکہ وہ مریض ہو گئے۔
248.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے ان سے سوال کیا: نبی ﷺ کے زخم پر کون سی دوا استعمال کی گئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی شخص نہیں رہا۔ حضرت علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک بوریا لایا گیا اور اسے جلانے کے بعد اس کی راکھ کو آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غزوہ احد کے وقت زخم لگا تھا۔ جب پانی ڈالنے سے خون بند نہ ہوا تو ایک پرانا بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھر دی گئی۔ یہ راکھ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سے خون فوراً بند ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کا ختنہ کرنے کے بعد اس مقام پر راکھ لگا دی جاتی ہے، لیکن آج کل ترقی یافتہ دور میں جدید سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔ ڈاکٹر حضرات سے ختنہ کرانے میں دو فائدے ہیں:* بچے کوتکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ختنے سے پہلے ٹیکہ لگا کرسن کردیتے ہیں۔ * ایسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے زخم جلدی مندمل ہوجاتا ہے۔ 2۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ جاننے والاکوئی نہیں، کیونکہ یہ واقعہ غزوہ احد کے موقع پر پیش آیا اور جب حضرت سہل نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت اس واقعے پر اسی سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا اورحضرت سہل مدینے میں سب سے آخری وفات پانے والے صحابی ہیں۔ انھوں نے 91 ہجری میں وفات پائی۔ جبکہ ان کی عمر سوسال ہوچکی تھی۔ (فتح الباري:462/1) علامہ ابن بطال نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استخراج کیا ہے:۔ * عورت اپنے باپ اور دیگر محارم کی خدمت اور تیمارداری کے پیش نظر ان کا بدن چھوسکتی ہے۔ * دوا اور علاج کا جواز معلوم ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ * علاج معالجے میں دوسروں سے مدد لینے کا جواز ثابت ہوا۔ * بوریا جلاکر اس کی راکھ زخموں پر لگانے کی افادیت معلوم ہوئی۔ * مصائب وآلام میں حضرات انبیاء علیہ السلام کو بھی مبتلا کیا جاتارہا ہے۔ * لوگ اگرکسی چیز سے واقف نہ ہوں تو اہل علم سے استفسار کاحق رکھتے ہیں۔ (شرح ابن بطال:362/1 وعمدة القاري:689/2) 4۔ عنوان میں (عَن وَجهِه) کا اضافہ صرف مطابقت واقعہ کی رعایت سے کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دھورہی تھیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر چہرے کے علاوہ بدن کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگائے تو اس کا الگ حکم ہوگا۔ اور اس روایت کو کتاب الوضوء میں لانے کی مناسبت یہ ہے کہ وضو لغوی لحاظ سے وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی حسن ونظافت ہیں، لہذا چہرسے سے خون کی آلائش کو دورکرنا اس میں داخل ہوگا، لیکن ارباب :’’تدبر‘‘ نے توامام بخاری ؒ پر طعن کی ہے، چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں:’’ اس میں کسی شرعی حکم کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس باب پرباندھنے کی ضرورت نہ تھی۔‘‘(تدبرحدیث:334/1) لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کی یہ عظمت ہے کہ ان کے مخالفین بھی چاروناچار ان کی دقت نظر کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، چنانچہ اصلاحی صاحب امام بخاری کی باریک بینی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:’’اگرسیدہ فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا زخم دھویا تو یہ تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے۔ دنیا کی تمام خواتین کے لیے اورلڑکیوں کے لیے یہ ایک نمونہ ہے۔ اس حوالے سے امام صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعضائے وضو پر زخم وغیرہ کی صورت میں وضو میں کسی دوسرے سے مدد لی جاسکتی ہے۔‘‘ ( تدبر حدیث:334/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
245
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
243
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
243
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
243
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سابقہ ابواب میں مقدمات وضو میں کسی غیر کی اعانت کو جائز قراردے چکے ہیں۔اس عنوان میں اصل وضو میں بھی دوسروں کی اعانت کوجائز قراردیاجارہا ہے جیسا کہ ابوالعالیہ سے مروی ہے۔مصنف عبدالرزاق(162/1) میں اس کی تفصیل ہے کہ عاصم بن ابی سلیمان حضرت ابوالعالیہ کی تیمارداری کے لیے ان کے ہاں گئے ،دوسرے لوگوں نے انھیں وضو کرایا جب ایک پاؤں رہ گیا تو انھوں نےفرمایا:اس پر مسح کردوکیونکہ یہ تندرست نہیں ہے۔مصنف ابن ابی شیبہ(247/1) میں ہے کہ پاؤں پر زخم کی وجہ سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔
ابوالعالیہ نے ( اپنے لڑکوں سے ) کہا کہ میرے پیروں پر مالش کرو کیونکہ وہ مریض ہو گئے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے ان سے سوال کیا: نبی ﷺ کے زخم پر کون سی دوا استعمال کی گئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی شخص نہیں رہا۔ حضرت علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک بوریا لایا گیا اور اسے جلانے کے بعد اس کی راکھ کو آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غزوہ احد کے وقت زخم لگا تھا۔ جب پانی ڈالنے سے خون بند نہ ہوا تو ایک پرانا بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھر دی گئی۔ یہ راکھ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سے خون فوراً بند ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کا ختنہ کرنے کے بعد اس مقام پر راکھ لگا دی جاتی ہے، لیکن آج کل ترقی یافتہ دور میں جدید سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔ ڈاکٹر حضرات سے ختنہ کرانے میں دو فائدے ہیں:* بچے کوتکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ختنے سے پہلے ٹیکہ لگا کرسن کردیتے ہیں۔ * ایسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے زخم جلدی مندمل ہوجاتا ہے۔ 2۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ جاننے والاکوئی نہیں، کیونکہ یہ واقعہ غزوہ احد کے موقع پر پیش آیا اور جب حضرت سہل نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت اس واقعے پر اسی سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا اورحضرت سہل مدینے میں سب سے آخری وفات پانے والے صحابی ہیں۔ انھوں نے 91 ہجری میں وفات پائی۔ جبکہ ان کی عمر سوسال ہوچکی تھی۔ (فتح الباري:462/1) علامہ ابن بطال نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استخراج کیا ہے:۔ * عورت اپنے باپ اور دیگر محارم کی خدمت اور تیمارداری کے پیش نظر ان کا بدن چھوسکتی ہے۔ * دوا اور علاج کا جواز معلوم ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ * علاج معالجے میں دوسروں سے مدد لینے کا جواز ثابت ہوا۔ * بوریا جلاکر اس کی راکھ زخموں پر لگانے کی افادیت معلوم ہوئی۔ * مصائب وآلام میں حضرات انبیاء علیہ السلام کو بھی مبتلا کیا جاتارہا ہے۔ * لوگ اگرکسی چیز سے واقف نہ ہوں تو اہل علم سے استفسار کاحق رکھتے ہیں۔ (شرح ابن بطال:362/1 وعمدة القاري:689/2) 4۔ عنوان میں (عَن وَجهِه) کا اضافہ صرف مطابقت واقعہ کی رعایت سے کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دھورہی تھیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر چہرے کے علاوہ بدن کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگائے تو اس کا الگ حکم ہوگا۔ اور اس روایت کو کتاب الوضوء میں لانے کی مناسبت یہ ہے کہ وضو لغوی لحاظ سے وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی حسن ونظافت ہیں، لہذا چہرسے سے خون کی آلائش کو دورکرنا اس میں داخل ہوگا، لیکن ارباب :’’تدبر‘‘ نے توامام بخاری ؒ پر طعن کی ہے، چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں:’’ اس میں کسی شرعی حکم کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس باب پرباندھنے کی ضرورت نہ تھی۔‘‘(تدبرحدیث:334/1) لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کی یہ عظمت ہے کہ ان کے مخالفین بھی چاروناچار ان کی دقت نظر کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، چنانچہ اصلاحی صاحب امام بخاری کی باریک بینی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:’’اگرسیدہ فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا زخم دھویا تو یہ تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے۔ دنیا کی تمام خواتین کے لیے اورلڑکیوں کے لیے یہ ایک نمونہ ہے۔ اس حوالے سے امام صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعضائے وضو پر زخم وغیرہ کی صورت میں وضو میں کسی دوسرے سے مدد لی جاسکتی ہے۔‘‘ ( تدبر حدیث:334/1)
ترجمۃ الباب:
ابوالعالیہ نے کہا: میرے پاؤں پر مسح کر دو کیونکہ وہ صحت مند نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور ( میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ( احد کے ) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا ( اب ) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور حضرت فاطمہ ؓا آپ کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے دوا اور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دورکرنے میں دوسروں سے مدد لینا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA): Sahl bin Sa'd As-Sa'idi, was asked by the people, "With what was the wound of the Prophet (ﷺ) treated? Sahl replied, "None remains among the people living who knows that better than I. 'Ah used to bring water in his shield and Fatima used to wash the blood off his face. Then straw mat was burnt and the wound was filled with it."