تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فوجی دستے کا سفر خرچ ایک جگہ جمع کر لیا پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا تمام فوجیوں کو تقسیم کرتے رہے، اس طرح زاد سفر کی شراکت اور اس کی اندازے سے تقسیم ثابت ہوئی۔ اس میں تھوڑے بہت، یعنی معمولی فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا جو اذن عرفی (جس کی عرف عام میں اجازت سمجھی جاتی ہو) کی وجہ سے جائز ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ جب تمام فوجیوں کا راشن جمع کر دیا گیا تو کوئی اپنے حصے سے کم کھائے گا اور کوئی زیادہ استعمال کرے گا۔ یہ کمی بیشی ممنوع نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ایک عمدہ شکل ہے اور ایسے مواقع پر اسلامی طریقے کے مطابق ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ اس جذبۂ ایثار کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑ جیسی مچھلی سمندر کے کنارے پھینک دی جسے تین سو افراد کئی دنوں تک کھاتے رہے۔