تشریح:
1۔ غسل چونکہ جامع طہارت ہے، اس میں طہارت استنجا بھی ہے، طہارت وضو بھی اور طہارت غسل بھی، جب یہ تمام طہارتوں کو شامل ہے تو پھر اس کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ امام بخاری ؒ کا مقصد غسل سے قبل وضو کی مشروعیت کو بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کی ابتدا وضو سے فرماتے تھے، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے غسل کی ابتدا استنجا سے کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:718 (316)) حضرت میمونہ ؓ کی ایک روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ استنجا کے بعد اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے اور اسے خوب صاف کرتے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:722 (317)) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: کسی حدیث میں (غسل جنابت کرتے وقت) سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباری:472/1) حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔ (سنن النسائي، الغسل والتیمم، حدیث:422) امام نسائی نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔’’جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا‘‘ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لیے جائیں جب کہ حضرت میمونہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ پاؤں غسل سے فراغت کے بعد دھوئے جائیں، ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر نہانے کی جگہ صاف ستھری ہے اور وہاں پانی نہیں ٹھہرتا تو پاؤں وضو کرتے وقت دھولیے جائیں۔ اگر پانی وہاں جمع ہو جاتا ہے تو غسل سے فراغت کے بعد انھیں دھو لیا جائے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پاؤں غسل سے فراغت کے بعد اس لیے دھوتے تھے تاکہ غسل کا افتتاح اور اختتام اعضائے وضو سے ہو۔ (فتح الباري:470/1) بعض حضرات نے ان دونوں روایات کو بایں طور بھی جمع کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے پاؤں پہلے بھی دھولیے جائیں اور حضرت میمونہ ؓ کی روایت کے پیش نظر غسل سے فراغت کے بعد بھی دھولیے جائیں تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے۔
3۔ ان دونوں روایات کے پیش نظر غسل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پردے کا اہتمام کیا جائے۔ پھر دونوں ہاتھ دھوئے جائیں۔ بعد ازاں دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو دھویا جائے اور اس پر لگی ہوئی آلائش کو دور کیا جائے۔ پھر وضو کا اہتمام ہو، بعد میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچا کر انھیں اچھی طرح ترکیا جائے۔ پھر تمام بدن پر پانی بہا لیا جائے، اگر غسل خانہ صاف ستھرا ہواور پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھوئے جائیں بصورت دیگر غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے جائیں۔ اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہو گی۔
4۔ شارحین نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ * غسل کا وضو غسل سے پہلے ہے بعد میں نہیں جب غسل کر لیا اور طہارت حاصل ہو گئی تو بلا ضرورت غسل کے بعد وضو کرنا خلاف سنت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہ کرتے تھے۔ (سنن النسائي، الغسل، حدیث:430) * اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ غسل سے پہلے وضو کرنا غسل کا ایک حصہ ہے، اس کی مستقل حیثیت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعضاء وضو کرتے وقت دھولیے ہیں انھیں دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت نہیں۔ اس کے متعلق امام بخاری ؒ آگے ایک مستقل عنوان (رقم16) لا رہے ہیں۔ * غسل سے پہلے وضو کی کیفیت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اس کا طریقہ وضو جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر جائے غسل صاف ہے اور وہاں پانی کھڑا نہیں ہوتا تو پاؤں غسل سے پہلے وضو کے ساتھ ہی دھو لیے جائیں، بصورت دیگر فراغت کے بعد وہاں سے ہٹ کر دھونا چاہیے۔
5۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میمونہ ؓ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے، کیونکہ شرمگاہ کا دھونا وضو سے پہلے ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے آئندہ عبد اللہ بن مبارک ؒ کے طریق میں بیان کیا ہے، وہاں پہلے ہاتھوں کا دھونا پھر استنجا کرنا، پھر زمین پر رگڑ کر انھیں صاف کرنا، اس کے بعد وضو کرنا، پاؤں دھونے کے علاوہ پھر تمام جسم پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث :281) اورغسل جنابت کا صحیح طریقہ یہی ہے۔