صحیح بخاری
2. کتاب: ایمان کے بیان میں
17. باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں کہ اگر وہ (کافر) توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (یعنی ان سے جنگ نہ کرو)
Sahi-Bukhari
2. Belief
17. Chapter: (The Statement of Allah Jalla Jalalahu) "But if they repent [by rejecting Shirk (polytheism) and accept Islamic Monotheism] and perform As-Salat (Iqamat-as-Salat) and give Zakat then leave their way free."
باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں کہ اگر وہ (کافر) توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (یعنی ان سے جنگ نہ کرو)
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: (The Statement of Allah Jalla Jalalahu) "But if they repent [by rejecting Shirk (polytheism) and accept Islamic Monotheism] and perform As-Salat (Iqamat-as-Salat) and give Zakat then leave their way free.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
25.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پورے آداب سے نماز ادا کریں اور زکاۃ دیں۔ جب وہ یہ کرنے لگیں تو انہوں نے اپنے مال و جان کو مجھ سے بچا لیا، سوائے حق اسلام کے۔ اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے باب میں طاعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ایمان قوی ہوتا ہے اور معاصی کے ارتکاب سے ایمان کمزور ہوجاتا ہے لہٰذا مرجیہ کا یہ کہنا کہ ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت نہیں، بالکل باطل اور لغو ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفار کا راستہ چھوڑنے کے لیے توبہ اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ظاہرہے کہ توبہ سے مرد کفرو شرک سے باز رہنا ہے جسے حدیث میں"ادائے شہادتین"کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ پھر محض شہادتین کا اقرار کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃ اور ایتائے زکاۃ کو اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب دنیا میں ان اعمال کی حیثیت تسلیم شدہ ہے تو آخرت میں ان کے بغیر عذاب سے رہائی کیونکر ہوگی۔ 2۔ کفار سے جنگ لڑنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اگرچہ اسلام میں جزیے اور مناسب شرائط کے ساتھ مصالحت پر بھی جنگ ختم ہو جاتی ہے، تاہم جنگ بندی کی یہ صورت اسلامی جنگ کی اصل غایت نہیں ہے لیکن چونکہ اس کے ذریعے سے اصل مقصد کے لیے ایک پر امن راستہ کھل جاتا ہے لہٰذا ان پر بھی جنگ روک دی جاتی ہے۔ 3۔ جب ایک شخص نے شہادتین (توحید ورسالت کی گواہی) کا اقرار کر کے اپنے عمل وکردار سے اپنے مومن ہونے کی تصدیق کردی تو ہم اسے مسلمان شمار کریں گے اور اسلامی حقوق میں اسے برابر کا شریک رکھیں گے۔ رہا دل کا معاملہ تو وہ اللہ کے ہاں معلوم ہوگا ۔ ہم اس کےمکلف نہیں ہیں کہ دل چیر کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ اس کا یہ اقرار اور عمل حقیقی ہے یا نمائشی یعنی آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا ایسے انسان سے دنیوی مساوات کا معاملہ اس امرکی ضمانت نہیں ہوگا۔ کہ آخرت میں بھی یہ شخص مسلمانوں کے برابر ہی رہے گا۔ وہاں کے معاملات اس کے ضمیر کے مطابق ہوں گے۔ اگر یہ شخص ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مسلمان ہوگا۔ تو جنت کا حقدار ہوگا بصورت دیگر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ 4۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اہل بدعت جو شہادتین کا اقرار یا شرائع اسلام کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے اور اس قسم کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ (فتح الباري: 1؍105)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
25
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
25
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
25
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
25
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پورے آداب سے نماز ادا کریں اور زکاۃ دیں۔ جب وہ یہ کرنے لگیں تو انہوں نے اپنے مال و جان کو مجھ سے بچا لیا، سوائے حق اسلام کے۔ اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے باب میں طاعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ایمان قوی ہوتا ہے اور معاصی کے ارتکاب سے ایمان کمزور ہوجاتا ہے لہٰذا مرجیہ کا یہ کہنا کہ ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت نہیں، بالکل باطل اور لغو ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفار کا راستہ چھوڑنے کے لیے توبہ اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ظاہرہے کہ توبہ سے مرد کفرو شرک سے باز رہنا ہے جسے حدیث میں"ادائے شہادتین"کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ پھر محض شہادتین کا اقرار کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃ اور ایتائے زکاۃ کو اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب دنیا میں ان اعمال کی حیثیت تسلیم شدہ ہے تو آخرت میں ان کے بغیر عذاب سے رہائی کیونکر ہوگی۔ 2۔ کفار سے جنگ لڑنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اگرچہ اسلام میں جزیے اور مناسب شرائط کے ساتھ مصالحت پر بھی جنگ ختم ہو جاتی ہے، تاہم جنگ بندی کی یہ صورت اسلامی جنگ کی اصل غایت نہیں ہے لیکن چونکہ اس کے ذریعے سے اصل مقصد کے لیے ایک پر امن راستہ کھل جاتا ہے لہٰذا ان پر بھی جنگ روک دی جاتی ہے۔ 3۔ جب ایک شخص نے شہادتین (توحید ورسالت کی گواہی) کا اقرار کر کے اپنے عمل وکردار سے اپنے مومن ہونے کی تصدیق کردی تو ہم اسے مسلمان شمار کریں گے اور اسلامی حقوق میں اسے برابر کا شریک رکھیں گے۔ رہا دل کا معاملہ تو وہ اللہ کے ہاں معلوم ہوگا ۔ ہم اس کےمکلف نہیں ہیں کہ دل چیر کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ اس کا یہ اقرار اور عمل حقیقی ہے یا نمائشی یعنی آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا ایسے انسان سے دنیوی مساوات کا معاملہ اس امرکی ضمانت نہیں ہوگا۔ کہ آخرت میں بھی یہ شخص مسلمانوں کے برابر ہی رہے گا۔ وہاں کے معاملات اس کے ضمیر کے مطابق ہوں گے۔ اگر یہ شخص ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مسلمان ہوگا۔ تو جنت کا حقدار ہوگا بصورت دیگر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ 4۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اہل بدعت جو شہادتین کا اقرار یا شرائع اسلام کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے اور اس قسم کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ (فتح الباري: 1؍105)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے ابوروح حرمی بن عمارہ نے، ان سے شعبہ نے، وہ واقد بن محمد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث اپنے باپ سے سنی، وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابواب ایمان میں لانے سے فرقہ ضالہ مرجیہ کی تردید مقصود ہے جن کا گمان ہے کہ ایمان کے لیے عمل کی حاجت نہیں۔ آیت اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے توبہ کرنے اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کا راستہ چھوڑدو یعنی جنگ نہ کرو۔ اور حدیث میں اس کی تفسیر مزید کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ کلمہ شہات کا بھی ذکر کیاگیا اور بتلایاگیا کہ جو لوگ ان ظاہری اعمال کو بجالائیں گے ان کو یقیناً مسلمان ہی تصور کیا جائے گا اور وہ جملہ اسلامی حقوق کے مستحق ہوں گے۔ رہا ان کے دل کا حال سو وہ اللہ کے حوالہ ہے کہ دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا وہی ہے۔ "إلابحق الإسلام" کا مطلب یہ کہ قوانین اسلام کے تحت اگر وہ کسی سزا یا حد کے مستحق ہوں گے تو اس وقت ان کا ظاہری اسلام اس بارے میں رکاوٹ نہ بن سکے گا اور شرعی سزا بالضرور ان پر لاگو ہوگی۔ جیسے محصن زانی کے لیے رجم ہے۔ ناحق خون ریزی کرنے والے کے لیے قصاص ہے۔ یاجیسے وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد زکوٰۃ سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے صاف صاف فرمادیا : "لأقاتلن من فرق بین الصلوة والزکوٰة." ’’جو لوگ نماز کی فرضیت کے قائل ہیں مگر زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کررہے ہیں ان سے میں ضرور مقابلہ کروں گا۔‘‘ "إلابحق الإسلام" میں ایسے جملہ امور داخل ہیں۔ آیت شریفہ مذکورہ سورۃ توبہ میں ہے جو پوری یہ ہے: ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ (التوبة: 5) ’’یعنی حرمت کے مہینے گزرنے کے بعد ( مدافعانہ طور پر ) مشرکین سے جنگ کرو اور جہاں بھی تمہارا داؤلگے ان کو مارو، پکڑو، قیدکرو اور ان کے پکڑنے یا زیرکرنے کے لیے ہرگھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ شرارت سے توبہ کریں اور ( اسلام قبول کرکے ) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑدو۔ کیونکہ اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ آیت شریفہ کا تعلق ان مشرکین عرب کے ساتھ ہے جنہوں نے مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا اور ہر وقت وہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں رہے اور ’’خود جیو اور دوسروں کو جینے دو‘‘ کا فطری اصول قطعاً بھلادیا۔ آخر مسلمانوں کو مجبوراً مدافعت کے لیے قدم اٹھانا پڑا۔ آیت کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے اس پر بھی ان کو آزادی دی گئی کہ اگروہ جارحانہ اقدام سے باز آجائیں اور جنگ بند کرکے جزیہ ادا کریں تو ان کو امن دیا جائے گا اور اگر اسلام قبول کرلیں تو پھر وہ اسلامی برادری کے فرد بن جائیں گے اور جملہ اسلامی حقوق ان کو حاصل ہوں گے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: "ویؤخذ من هذا الحدیث قبول الأعمال الظاهرة والحکم بمایقتضیه الظاهر والإکتفاءفیقبول الإیمان بالإعتقاد الجازم." یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال ظاہری کو قبول کیا جائے گا اور ظاہری حال ہی پر حکم لگایا جائے گا اور پختہ اعتقاد کو قبولیت ایمان کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:"و یؤخذ منه ترك تکفیر أهل البدع المقرین بالتوحید الملتزمین للشرائع وقبول توبة الکافر من کفره من غیرتفصیل بین کفر ظاهر أو باطن." یعنی اس حدیث سے یہ بھی لیا جائے گا کہ جو اہل بدعت توحید کے اقراری اور شرائع کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور یہ کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی تفصیل میں نہ جائیں گے کہ وہ توبہ ظاہری کررہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ ہاں جو لوگ محبت بدعت میں گرفتار ہوکر علانیہ توہین و انکار سنت کریں گے وہ ضرور آیت کریمہ ﴿فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾ (آل عمران: 32) کے مصداق ہوں گے۔ حضرت امام المحدثین مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے اور یہ بتلاتے ہوئے کہ اعمال بھی ایمان ہی میں داخل ہیں، تفصیل مزید کے طور پر آگے بتلانا چاہتے ہیں کہ بہت سی آیات قرآنی واحادیث نبوی میں لفظ عمل استعمال ہوا ہے اور وہاں اس سے ایمان مراد ہے۔ پس مرجیہ کا یہ قول کہ ایمان قول بلاعمل کا نام ہے، باطل ہے۔ حضرت علامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث فرماتے ہیں: "وفي الحدیث رد علی المرجئة فی قولهم إن الإیمان غیرمفتقر إلی الأعمال وفیه تنبیه علی أن الأعمال من الإیمان والحدیث موافق لقوله تعالیٰ:﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ ﴾ متفق علیه أخرجه البخاري فی الإیمان والصلوة ومسلم فی الإیمان إلا أن مسلما لم یذکر إلابحق الإسلام لکنه مراد والحدیث أخرجه أیضا الشیخان من حدیث أبی هریرة والبخاري من حدیث أنس ومسلم من حدیث جابر."(مرعاۃ: جلد اول، ص: 36) مراد وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الإیمان اور کتاب الصلوٰة میں نقل کیا ہے اور امام مسلم نے صرف ایمان میں اور وہاں لفظ "إلابحق الإسلام" ذکر نہیں ہوا لیکن مراد وہی ہے نیز اس حدیث کو شیخان نے حدیث ابوہریره سے اور بخاری نے حدیث انس سے اور مسلم نے حدیث جابر سے بھی روایت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said: "I have been ordered (by Allah) to fight against the people until they testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad (ﷺ) is Allah's Apostle, and offer the prayers perfectly and give the obligatory charity, so if they perform that, then they save their lives and property from me except for Islamic laws and then their reckoning (accounts) will be done by Allah".