تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے باب میں طاعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ایمان قوی ہوتا ہے اور معاصی کے ارتکاب سے ایمان کمزور ہوجاتا ہے لہٰذا مرجیہ کا یہ کہنا کہ ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت نہیں، بالکل باطل اور لغو ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفار کا راستہ چھوڑنے کے لیے توبہ اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ظاہرہے کہ توبہ سے مرد کفرو شرک سے باز رہنا ہے جسے حدیث میں"ادائے شہادتین"کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ پھر محض شہادتین کا اقرار کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃ اور ایتائے زکاۃ کو اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب دنیا میں ان اعمال کی حیثیت تسلیم شدہ ہے تو آخرت میں ان کے بغیر عذاب سے رہائی کیونکر ہوگی۔
2۔ کفار سے جنگ لڑنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اگرچہ اسلام میں جزیے اور مناسب شرائط کے ساتھ مصالحت پر بھی جنگ ختم ہو جاتی ہے، تاہم جنگ بندی کی یہ صورت اسلامی جنگ کی اصل غایت نہیں ہے لیکن چونکہ اس کے ذریعے سے اصل مقصد کے لیے ایک پر امن راستہ کھل جاتا ہے لہٰذا ان پر بھی جنگ روک دی جاتی ہے۔
3۔ جب ایک شخص نے شہادتین (توحید ورسالت کی گواہی) کا اقرار کر کے اپنے عمل وکردار سے اپنے مومن ہونے کی تصدیق کردی تو ہم اسے مسلمان شمار کریں گے اور اسلامی حقوق میں اسے برابر کا شریک رکھیں گے۔ رہا دل کا معاملہ تو وہ اللہ کے ہاں معلوم ہوگا ۔ ہم اس کےمکلف نہیں ہیں کہ دل چیر کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ اس کا یہ اقرار اور عمل حقیقی ہے یا نمائشی یعنی آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا ایسے انسان سے دنیوی مساوات کا معاملہ اس امرکی ضمانت نہیں ہوگا۔ کہ آخرت میں بھی یہ شخص مسلمانوں کے برابر ہی رہے گا۔ وہاں کے معاملات اس کے ضمیر کے مطابق ہوں گے۔ اگر یہ شخص ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مسلمان ہوگا۔ تو جنت کا حقدار ہوگا بصورت دیگر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
4۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اہل بدعت جو شہادتین کا اقرار یا شرائع اسلام کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے اور اس قسم کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ (فتح الباري: 1؍105)