تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ بعض حضرات کے نزدیک خاوند بیوی کا اکٹھے غسل جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ ان کی تردید کرتے ہوئے اس کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں: مذکورہ روایت سے بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اتحاد ظرف اتحاد زمان کو لازم نہیں کہ ایک ہی وقت میں دونوں کا غسل ہوتا ہو، نیز واؤ کا استعمال عطف اور انفصال کے لیے ہے، قران و اتحاد کے لیے ان کا استعمال نہیں ہوتا، وہاں دوسری روایات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس برتن سے ایک وقت میں دونوں غسل کرتے تھے۔ (حاشیة السندي :56/1) امام بخاری نے کتاب الوضو میں مرد عورت کا ایک برتن میں وضو کرنا ثابت فرمایا۔ اسی طرح یہاں مرد وعورت کا ایک وقت میں ایک ہی برتن سے اکٹھا غسل کرنا ثابت کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں اورنبی ﷺ ایک برتن سے اکٹھے غسل کرتے تھے اور اس برتن میں ہمارے ہاتھ باری باری جاتے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:261) ایک روایت میں ہے کہ ہم اس سے اکٹھے چلو بھرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:273) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے چلو بھرتے تو میں کہتی میرے لیے پانی بچانا۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:32 (321)) نسائی کی روایت میں ہے کہ جب میں پہلے چلو بھر لیتی تو رسول اللہ ﷺ (مزاح کے طور پر) فرماتے : ’’میرے لیے پانی بچا رکھیو۔‘‘ (سنن النسائي، الغسل، حدیث:414) بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصود عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کا جواز ثابت کرنا ہے، جیسا کہ قبل ازیں عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کا جواز ثابت کر چکے ہیں، کیونکہ جب ایک ساتھ غسل کریں گے تو جس وقت ایک پانی لے گا تو بقیہ پانی دوسرے کے لیے"فضل" بن جائے گا۔ لیکن اس قدر تکلف کی کیا ضرورت ہے، کیونکہ احادیث میں صراحت ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ ؓ سے بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:743 (323))
2۔ علامہ داودی نے اس حدیث سے ایک دوسرے کا عضو مستور دیکھنے کا جواز ثابت کیا ہے، کیونکہ جب بیوی خاوند مل کر اکٹھے غسل کریں گے تو یقیناً ایک دوسرے کے عضو مستور پر نظر پڑے گی، اس کی تائید ابن حبان کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سلیمان بن موسیٰ سے خاوند بیوی کے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کے متعلق حضرت عطاء سے سوال کیا وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دیا۔ (فتح الباری:473/1)
3۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ ایک برتن (قدح) سے غسل کرتے تھے۔ اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔ فرق سولہ رطل کا پیمانہ ہے۔ چونکہ ایک صاع 3۔1۔5 رطل کا ہوتا ہے، اس لیے فرق میں تین صاع پانی آتا تھا۔ اس کی تائید سفیان بن عیینہ کے قول سے بھی ہوتی ہے، جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ فرق تین صاع کا پیمانہ ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:727 (319)) جب رسول اللہ ﷺ اکیلے غسل فرماتے توایک صاع پانی کی مقدار استعمال کرتے، جیسا کہ احادیث میں بصراحت آیا ہے، لیکن تحدید نہیں، بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث عائشہ ؓ میں جو فرق سے غسل کرنے کا ذکر ہے اس میں مقدار ماء کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ بھرا ہوا تھا یا کم تھا۔ (عمدة القاري:13/1) اگر وہ بھرا ہوا تھا تو ہر ایک کے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ صاع آتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس وقت برتن میں دو صاع پانی ہو تو پھر مذکورہ بالا حدیث کے خلاف نہیں ہوگا اور یہ تحقیقی صورت ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ایک ہی صاع سے غسل فرماتے تھے۔ کبھی وہ مقدار چھوٹے برتن میں ہوتی تھی اور کبھی بڑے برتن میں اسے ڈال لیا جاتا تھا۔ اگر پہلی صورت ہے تو غسل کے پانی کی مقدارتقریبی ہو گی۔ تحدید سے اس کا تعلق نہیں ہو گا، یعنی ایک ڈیڑھ صاع سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔