قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِتْقِ (بَابُ أُمِّ الوَلَدِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّهَا». ‏

2533. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: إِنَّ عُتْبَةَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنْ يَقْبِضَ إِلَيْهِ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، قَالَ عُتْبَةُ: إِنَّهُ ابْنِي، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الفَتْحِ، أَخَذَ سَعْدٌ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَأَقْبَلَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَ مَعَهُ بِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا ابْنُ أَخِي عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَخِي ابْنُ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ابْنِ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَإِذَا هُوَ أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِيهِ» قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ» مِمَّا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، وَكَانَتْ سَوْدَةُ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابوہریرہؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے۔ تشریح : ام ولد وہ لونڈی ہے جو اپنے مالک کو جنے۔ اگر علماءیہ کہتے ہیں کہ وہ مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی قول ہے اور ہمارے امام احمد اور اسحاق بھی اسی طرف گئے ہیں۔ بعض علماء نے کہا وہ آزاد نہیں ہوتی اور اس کی بیع جائز ہے۔ ترجیح قول اول ہی کو حاصل ہے۔ قیامت کی نشانی والی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے تاکہ اشارہ ہو کہ ام ولد کی بیع جائز نہیں اور ام ولد کا بکنا یا اس کا اپنی اولاد کی ملک میں رہنا قیامت کی نشانی ہے۔ امام قسطلانی فرماتے ہیں: وقد اختلف السلف والخلف فی عتق ام الولد و فی جواز بیعھا فالثابت عن عمر عدم جواز بیعھا الخ یعنی سلف اور خلف کا ام ولد کی آزادی اور اس کی بیع کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا عدم جواز ثابت ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ عہد رسالت میں پھر عہد صدیقی میں ام ولد کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں کچھ مصالح کی بنا پر ان کی بیع کو ممنوع قرار دے دیا اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ وقتی فیصلہ ایک اجماعی مسئلہ بن گیا۔ قال الطیبی ہٰذا من اقوی الدلائل علی بطلان بیع امہات الاولاد و ذلک ان الصحابۃ لولم یعلموا ان الحق مع عمر لم یتابعوہ علیہ ولم یسکتوا عنہ ( حاشیہ بخاری ج: 1ص: 344 ) یعنی طیبی نے کہا کہ حضرت عمر کا یہ فیصلہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اولاد والی لونڈی کا بیچنا باطل ہے۔ اگر صحابہ کرام یہ نہ جانتے کہ حق عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے تو وہ نہ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے اور نہ اس فیصلہ پر خاموش رہتے۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہی حق تھا۔ الفاظ حدیث : ان تلدالامۃ ربہا کے ذیل میں شارحین لکھتے ہیں۔ الرب لغۃ السید و المالک والمربی والمنعم والمراد ہہنا المولیٰ معناہ اتساع الاسلام واستبلاءاہلہ علی الترک واتخاذہم سراری واذا استولد الجاریۃ کان الولد بمنزلۃ ربہا لانہ ولد سیدہا ولانہ فی الحسب کابیہ اولان الاماءیلدن الملوک فتصیر الامام من جملۃ الرعایا اوہو کنایۃ عن عقوق الاولاد بان یعامل الولد امہ معاملۃ السید امتہ الخ ( شرح بخاری ) یعنی رب لغت میں سید اور مالک اور مربی اور منعم کو کہا جاتا ہے۔ یہاں مولا مراد ہے۔ یعنی یہ کہ اسلام بہت وسیع ہوجائے گا اور مسلمان ترکوں پر غالب آکر ان کو غلام بنالیں گے اور جب لونڈی بچہ جنے تو گویا اس نے خود اپنے مالک کو جنم دیا۔ اس لیے کہ وہ اس کے مالک کا بچہ ہے یا وہ حسب میں اپنے باپ کے مانند ہے یا یہ کہ لونڈیاں بادشاہوں کو جنیں گی پس امام بھی رعایا میں ہوجائیں گے۔ یا اس جملہ میں اولاد کی نافرمانیوں پر اشارہ ہے کہ اولاد اپنی ماں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے گی جیسا کہ ایک لونڈی کے ساتھ اس کا آقا برتاؤ کرتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرب قیامت کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ لونڈیوں کی اولاد بادشاہ بن جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

2533.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص  ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد  ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد  ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ !یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد کے بستر پر پیدا ہواتھا۔‘‘ (تب) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے سودہ بنت زمعہ!تم اس سے حجاب میں رہنا‘‘ کیونکہ آپ نے اس کی مشابہت عتبہ کے ساتھ دیکھی تھی۔ ام المومنین حضرت سودہ  ؓ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔