باب : راہن اورمرتہن میں اگر کسی بات میں اختلاف ہو جائے یا ان کی طرح دوسرے لوگوں میں تو گواہی پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے، ورنہ ( منکر ) مدعیٰ عل یہ سے قسم لی جائے گی
)
Sahi-Bukhari:
Mortgaging
(Chapter: Dispute between the mortgagor and mortgagee)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2533.
حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی معاملہ دریافت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؒ کو خط لکھا تو انھوں نے مجھے بایں الفاظ جواب تحریر کیا: ’’نبی کریم ﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کے ذمے ہے۔‘‘
تشریح:
راہن، گروی رکھنے والا اور مرتہن جس کے پاس گروی رکھی جائے۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ مدعی اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کرے یا گواہ لائے، اگر مدعی کے پاس ثبوت یا گواہ نہ ہوں تو مدعا علیہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے معاملے میں جو اصول ہے وہی اصول راہن اور مرتہن کے بارے ہو گا۔ ان کے اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں قرض کی مقدار میں اختلاف کریں اور مرہونہ چیز بھی موجود ہو، راہن کہے کہ میں نے ایک سو کے عوض گروی رکھی ہے اور مرتہن کہے کہ میں نے اس سے دو سو روپیہ لینے ہیں اور یہ گروی دو سو روپے کے عوض ہے، تو اس اختلاف کو نمٹانے کے لیے درج بالا طریقہ استعمال کیا جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2427
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2514
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2514
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2514
تمہید کتاب
لغوی طور پر رہن مصدر ہے، جس کے معنی گروی رکھنے، گروی ثابت ہونے، ہمیشہ رہنے، روکنے اور لازم ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا گروی کہلاتا ہے۔ ارتہان گروی لینے، استرہان گروی طلب کرنے، راہن گروی رکھنے والے مقروض، مرتہن گروی لینے والے حق دار اور مرہون یا رہن گروی رکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے۔رہن ایک طرح کا معاہدہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں راضی خوشی یہ معاملہ کریں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ راہن نے جو چیز مرتہن کو بطور رہن دی ہے اس پر قبضہ بھی دے، مثلاً: اگر اس نے کوئی کھیتی رہن میں رکھی ہے مگر اس پر کسی دوسرے کا قبضہ ہے تو اس صورت میں رہن کا معاملہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مرہون اس قابل ہو کہ اسے فروخت کر کے قیمت وصول کی جا سکتی ہو، یعنی شریعت اسے قابلِ استعمال مال تسلیم کرتی ہو، چنانچہ اگر کسی نے تالاب کی مچھلی یا اُڑتا ہوا پرندہ یا پھل آنے سے پہلے باغ کا پھل گروی رکھا تو ایسی چیزوں سے گروی رکھنے کا معاملہ صحیح نہیں ہو گا۔دراصل اعتماد کی فضا سازگار رہنے یا رکھنے کے لیے کسی چیز کو گروی رکھا جاتا ہے، مثلاً: ایک آدمی سفر میں ہے اور اسے رقم کی ضرورت ہے یا اپنے وطن میں ہے لیکن اسے کوئی جانتا نہیں یا اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے اسے کوئی قرض نہیں دیتا تو شریعت نے قرض لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز کسی کے پاس گروی رکھ کر اس سے قرض لے لے۔ اس طرح قرض دینے والے کو بھی اطمینان ہو جائے گا کہ اس کی رقم ماری نہیں جائے گی اور قرض لینے والے کی بھی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ کسی شخص کو گروی کے ذریعے سے قرض دینے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا، البتہ شریعت نے ہر خوش حال سے یہ امید رکھی ہے کہ وہ ایسے موقع پر اپنے ضرورت مند بھائی کی مدد کرے۔ اگر ضمانت کے بغیر مدد نہیں کرتا تو آسان صورت یہ ہے کہ ضرورت مند کی کوئی چیز گروی رکھ لے اور اس کی مدد کرے۔زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب راہن مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی نہ کرتا تو مرتہن مرہونہ چیز کا مالک بن جاتا لیکن شریعت نے اسے باطل قرار دیا ہے بلکہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانے کی بھی محدود پیمانے پر اجازت دی ہے۔ اگر گروی شدہ چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں تو راہن کی اجازت کے بغیر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ مرہونہ چیز راہن کی ملکیت ہے اور اس کا منافع بھی اسی کا ہو گا اِلا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ اور اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج ہے، مثلاً: کوئی جانور ہے تو خرچ کے مطابق مرتہن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شریعت نے فائدہ اٹھانے کو خرچے کے ساتھ معلق کیا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔ واضح رہے کہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس امانت ہوتی ہے، اگر وہ اس کی زیادتی، کوتاہی یا خیانت کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا، بصورت دیگر وہ ضامن قرار پائے گا۔
حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی معاملہ دریافت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؒ کو خط لکھا تو انھوں نے مجھے بایں الفاظ جواب تحریر کیا: ’’نبی کریم ﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کے ذمے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
راہن، گروی رکھنے والا اور مرتہن جس کے پاس گروی رکھی جائے۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ مدعی اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کرے یا گواہ لائے، اگر مدعی کے پاس ثبوت یا گواہ نہ ہوں تو مدعا علیہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے معاملے میں جو اصول ہے وہی اصول راہن اور مرتہن کے بارے ہو گا۔ ان کے اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں قرض کی مقدار میں اختلاف کریں اور مرہونہ چیز بھی موجود ہو، راہن کہے کہ میں نے ایک سو کے عوض گروی رکھی ہے اور مرتہن کہے کہ میں نے اس سے دو سو روپیہ لینے ہیں اور یہ گروی دو سو روپے کے عوض ہے، تو اس اختلاف کو نمٹانے کے لیے درج بالا طریقہ استعمال کیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ کی خدمت میں (دو عوتوں کے مقدمہ میں) لکھا تو اس کے جواب میں انہوں نے تحریر فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فیصلہ کیا تھا کہ (اگر مدعی گواہ نہ پیش کرسکے) تو مدعیٰ علیہ سے قسم لی جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
یہ اختلاف خواہ اصل رہن میں ہو یا مقدار شی مرہونہ میں میں مثلاً مرتہن کہے تونے زمین درختوں سمیت گروی رکھی تھی اور راہن کہے میں نے صرف زمین گروی رکھی تھی تو مرتہن ایک زیادہ کامدعی ہوا، اس کو گواہ لانا چاہئے۔ اگر گواہ نہ لائے تو راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ شافعیہ کہتے ہیں رہن میں جب گواہ نہ ہوں تو ہر صورت میں راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abu Mulaika (RA): I wrote a letter to Ibn 'Abbas (RA) and he wrote to me that the Prophet (ﷺ) had given the verdict that the defendant had to take an oath.