تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک انسان کا ثواب کی نیت سے غلام آزاد کرنا جائز ہے لیکن اس کا ثواب تب ہی ملے گا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کفر کی حالت میں ان لوگوں کی عبادت صحیح ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ’’ان کی کوشش (نیکی اور اچھائی) دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی۔‘‘ (الکھف104:18) بلکہ اس کے بعد جب مسلمان ہو گا تو بحالت کفر کیے ہوئے نیک اعمال سے فائدہ حاصل کرے گا، چنانچہ حکیم بن حزام ؒ نے جب غلام آزاد کیے تو وہ اس وقت کافر تھے، ان کو ثواب مسلمان ہونے کے بعد حاصل ہوا، تو جس انسان نے بحالت مسلمان غلاموں کو آزاد کیا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب حاصل ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ کافر کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی اور نہ اسے آخرت ہی میں کوئی ثواب ملے گا، البتہ مسلمان بندوں پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ ان کی زمانۂ کفر میں کی ہوئی نیکیاں برقرار رہتی ہیں جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔