تشریح:
(1) بعض چیزیں ذاتی طور پر مکروہ ہوتی ہیں، مثلاً: سڑا ہوا یا باسی سالن وغیرہ، ایسی اشیاء کا تحفہ تو حماقت ہے اور کچھ چیزوں میں کراہت اضافی ہوتی ہے، مثلاً: ریشمی لباس، یہ مردوں کے لیے جائز نہیں، البتہ عورتیں اسے پہن سکتی ہیں۔ ایسی اشیاء بطور تحفہ دی جا سکتی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: کراہت سے مراد عام ہے، خواہ تحریمی ہو یا تنزیہی، یعنی جس لباس کا پہننا مردوں کے لیے ناجائز ہو اس کا ہدیہ جائز ہے کیونکہ اس کا مالک اس میں تصرف کر سکتا ہے، البتہ جن چیزوں کا استعمال مردوں اور عورتوں کے لیے منع ہے، مثلاً: سونے چاندی کے برتن تو ایسا ہدیہ ممنوع ہے۔ (فتح الباري:281/5) (2) ہمارے رجحان کے مطابق ان برتنوں کا استعمال ممنوع ہے، البتہ انہیں فروخت کر کے ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہذا ایسی چیز کا تحفہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو مکے میں تحفہ بھیجا تھا، البتہ جو چیزیں ذاتی طور پر حرام ہیں ان کا تحفہ بھی حرام ہے جیسا کہ آلات موسیقی کا تحفہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقع پر ٹی وی کا تحفہ بھی ناجائز ہے جو ہم اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔