باب:اس بیان میں کہ صرف ایک مرتبہ بدن پر پانی ڈال کر اگر غسل کیا جائے تو کافی ہو گا۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: To wash the body (parts) once only)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
262.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: حضرت میمونہ ؓ نے فرمایا: میں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کے غسل کے لیے پانی رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، بعد ازاں کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے جسم پر پانی بہایا۔ پھر اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح:
1۔ شارحین نے اس عنوان کے دو مطلب بیان کیے ہیں۔ * فریضہ غسل ایک مرتبہ پانی بہا لینے سے ادا ہو جاتا ہے جس طرح وضو میں ایک مرتبہ پانی ڈالنا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔جن روایات میں تین مرتبہ کا ذکر ہے وہ تحصیل کمال کے پیش نظر ہے۔ اس کے لیے وقت اور پانی میں گنجائش کا ہونا ضروری ہے۔ * بعض روایات میں ہے کہ شروع شروع میں غسل جنابت کے لیے سات مرتبہ پانی بہانا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے باربار سوال کرنے پر اسے ایک بار کر دیا گیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 247) (یہ روایت ضعیف ہے) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کا وہ عمل منسوخ ہے اور اب ایک مرتبہ پانی بہانا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔ 2۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ کہتے ہیں: امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ’’پھر اپنے جسم پر پانی بہایا‘‘ کے الفاظ سے بایں طور ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نے کوئی عدد ذکر نہیں کیا، اس لیے کم ازکم تعداد یعنی ایک مرتبہ پر اسے محمول کیا جائے گا، اصل یہی ہے کہ ایک مرتبہ پر اضافہ نہ کیا جائے، یعنی تکرار خلاف اصل ہے اور اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غسل میں استیعاب اور تعمیم شرط ہے، تعداد وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں۔ (شرح ابن بطال: 474/1) علامہ سندھی نے ایک اور انداز سے اس عنوان کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں: حضرت میمونہ ؓ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کی پوری کیفیت بیان کر رہی ہیں، انھوں نے ہاتھ دھونے کی تعداد ذکر کی، لیکن پانی بہانے میں ذکر تعداد سے سکوت فرمایا، یہ سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ پانی بہانے میں تکرار نہیں، بلکہ صرف ایک بار بہانے پر اکتفا کیا گیا۔ (حاشیة السندي:57/1) ابن بطال نے عدم ذکر سے عدم واقعہ پر استدلال لیا ہے۔ جبکہ علامہ سندھی نے محل بیان سے سکوت کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور محل بیان کا سکوت حجت ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
259
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
257
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
257
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
257
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: حضرت میمونہ ؓ نے فرمایا: میں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کے غسل کے لیے پانی رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، بعد ازاں کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے جسم پر پانی بہایا۔ پھر اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شارحین نے اس عنوان کے دو مطلب بیان کیے ہیں۔ * فریضہ غسل ایک مرتبہ پانی بہا لینے سے ادا ہو جاتا ہے جس طرح وضو میں ایک مرتبہ پانی ڈالنا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔جن روایات میں تین مرتبہ کا ذکر ہے وہ تحصیل کمال کے پیش نظر ہے۔ اس کے لیے وقت اور پانی میں گنجائش کا ہونا ضروری ہے۔ * بعض روایات میں ہے کہ شروع شروع میں غسل جنابت کے لیے سات مرتبہ پانی بہانا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے باربار سوال کرنے پر اسے ایک بار کر دیا گیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 247) (یہ روایت ضعیف ہے) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کا وہ عمل منسوخ ہے اور اب ایک مرتبہ پانی بہانا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔ 2۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ کہتے ہیں: امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ’’پھر اپنے جسم پر پانی بہایا‘‘ کے الفاظ سے بایں طور ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نے کوئی عدد ذکر نہیں کیا، اس لیے کم ازکم تعداد یعنی ایک مرتبہ پر اسے محمول کیا جائے گا، اصل یہی ہے کہ ایک مرتبہ پر اضافہ نہ کیا جائے، یعنی تکرار خلاف اصل ہے اور اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غسل میں استیعاب اور تعمیم شرط ہے، تعداد وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں۔ (شرح ابن بطال: 474/1) علامہ سندھی نے ایک اور انداز سے اس عنوان کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں: حضرت میمونہ ؓ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کی پوری کیفیت بیان کر رہی ہیں، انھوں نے ہاتھ دھونے کی تعداد ذکر کی، لیکن پانی بہانے میں ذکر تعداد سے سکوت فرمایا، یہ سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ پانی بہانے میں تکرار نہیں، بلکہ صرف ایک بار بہانے پر اکتفا کیا گیا۔ (حاشیة السندي:57/1) ابن بطال نے عدم ذکر سے عدم واقعہ پر استدلال لیا ہے۔ جبکہ علامہ سندھی نے محل بیان سے سکوت کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور محل بیان کا سکوت حجت ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم بن ابی الجعد سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ ام المؤمنین میمونہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنے ہاتھ دو مرتبہ یا تین مرتبہ دھوئے۔ پھر پانی اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر زمین پر ہاتھ رگڑا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی غسل میں ایک ہی بارسارے بدن پر پانی ڈالنا کافی ہے۔ گو باب کی حدیث میں ایک بار کی صراحت نہیں، مطلق پانی بہانے کا ذکر ہے جو ایک ہی بار پر محمول ہوگا، اسی سے ترجمہ باب نکلا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): I placed water for the bath of the Prophet (ﷺ). He washed his hands twice or thrice and then poured water on his left hand and washed his private parts. He rubbed his hands over the earth (and cleaned them), rinsed his mouth, washed his nose by putting water in it and blowing it out, washed his face and both forearms and then poured water over his body. Then he withdrew from that place and washed his feet.