قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الغُسْلِ (بَابٌ: هَلْ يُدْخِلُ الجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الجَنَابَةِ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَأَدْخَلَ ابْنُ عُمَرَ، وَالبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ يَدَهُ فِي الطَّهُورِ وَلَمْ يَغْسِلْهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ يَرَ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ بَأْسًا بِمَا يَنْتَضِحُ مِنْ غُسْلِ الجَنَابَةِ

262. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ غَسَلَ يَدَهُ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔ ابن عمر اور براء بن عازب نے ہاتھ دھونے سے پہلے غسل کے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا تھا۔ اور ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم اس پانی سے غسل میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے جس میں غسل جنابت کا پانی ٹپک کر گر گیا ہو۔تشریح : حضرت امام بخاری  کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہاتھ پر اور کوئی نجاست نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ڈال دے تو پانی نجس نہ ہوگا۔ کیونکہ جنابت نجاست حکمی ہے، حقیقی نہیں ہے۔ ابن عمر ؓ کے اثر کوسعید بن منصور نے اور براءبن عازب کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔ ان میں جنابت کا ذکر نہیں ہے۔ مگر حضرت امام  نے جنابت کو حدث پر قیاس کیا ہے۔ کیوں کہ دونوں حکمی نجاست ہیں اور ابن ابی شیبہ نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ بعض اصحاب کرام اپنے ہاتھ بغیر دھوئے پانی میں ڈال دیتے حالانکہ وہ جنبی ہوتے، یہ اسی حالت میں کہ ان کے ہاتھوں پر ظاہر میں کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہوتی تھی۔

262.

حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت فرماتے تو (پہلے) اپنا ہاتھ دھوتے تھے۔