تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں عمریٰ اور رقبیٰ دونوں کا ذکر کیا ہے لیکن احادیث میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دونوں ایک ہیں یا ان کا حکم ایک جیسا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک عمریٰ لینے والے کی ملک ہو جاتا ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں ہوتا، خواہ وہ شرط کرے۔ اگر کوئی مشروط عطیہ ہے تو شرط پوری ہونے پر اس کے مطابق عمل ہو گا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ اور رقبیٰ سے منع فرمایا ہے اور آپ نے انصار سے فرمایا تھا: ’’تم لوگ اپنی زمینیں اس طرح برباد نہ کرو جو شخص عمریٰ کرے گا وہ اسی کا ہو جائے گا جسے ہبہ کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الھبات، حدیث:4196(1625)) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنا مال واپس لینا چاہتے ہو تو عمریٰ نہ کرو کیونکہ جب تم نے عمریٰ کر دیا تو وہ واپس نہیں ہو گا بلکہ تم مشروط طور پر عطیہ کرو، اس لیے جواز اور نہی کی احادیث میں تعارض نہیں ہے۔ (فتح الباري:293/5) ہمارے ہاں عمریٰ کا رواج نہیں بلکہ پسندیدہ طریقہ ہبہ کا ہے۔ اگر کوئی اپنی چیز شرعی طور پر دوسرے کو دینا چاہتا ہے تو ہبہ کے ذریعے سے وہ دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم