صحیح بخاری
51. کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
24. باب: اگر کسی کو کچھ ہدیہ دیا جائے اس کے پاس اور لوگ بھی بیٹھے ہوں تو اب اس کو دیا جائے جو زیادہ حقدار ہے
صحيح البخاري
51. كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها
24. بَابُ مَنْ أُهْدِيَ لَهُ هَدِيَّةٌ وَعِنْدَهُ جُلَسَاؤُهُ، فَهُوَ أَحَقُّ
Sahi-Bukhari
51. Gifts
24. Chapter: Whosoever is given a gift while some people are sitting with him, he only has the right to have it
باب: اگر کسی کو کچھ ہدیہ دیا جائے اس کے پاس اور لوگ بھی بیٹھے ہوں تو اب اس کو دیا جائے جو زیادہ حقدار ہے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Whosoever is given a gift while some people are sitting with him, he only has the right to have it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2630.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک سفرمیں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور ایک منہ زور اونٹ پر سوار تھے جو حضرت عمر ؓ کا تھا۔ وہ اونٹ بار بار نبی کریم ﷺ سے آگے نکل جاتا تھا تو ان کے والد(حضرت عمر ؓ) انھیں کہتے: عبداللہ! نبی کریم ﷺ سے آگے کوئی نہیں بڑھتا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اس اونٹ کو میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: یہ آپ کا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے خرید لیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ! یہ تمہارا ہے اب اس سے جو چاہو کرو۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے وہ اونٹ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ہبہ کیا، حالانکہ اور لوگ بھی شریک سفر تھے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ شرکائے مجلس ہدیے میں شریک نہیں ہوں گے، خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔ ہدیے کا حق دار وہی شخص ہے جسے پیش کیا گیا ہے۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق جب ہدیہ معین شخص کے لیے ہو تو اس میں شراکت نہیں ہو سکتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2519
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2610
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2610
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2610
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابن عباس ؓ سے ایک مرفوع روایت ہے کہ جس شخص کو کوئی ہدیہ پیش کیا جائے اور اس کے پاس دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہوں تو وہ سب اس ہدیے میں شریک ہوں گے، لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:183/6) دراصل اس بات کا تعلق حالات و واقعات کے ساتھ ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو ہلکی پھلکی معمولی کھانے پینے والی اشیاء سے متعلق ہو سکتی ہے۔ حالات و قرائن سے اس امر کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نشین اس میں شریک ہیں یا نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک سفرمیں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور ایک منہ زور اونٹ پر سوار تھے جو حضرت عمر ؓ کا تھا۔ وہ اونٹ بار بار نبی کریم ﷺ سے آگے نکل جاتا تھا تو ان کے والد(حضرت عمر ؓ) انھیں کہتے: عبداللہ! نبی کریم ﷺ سے آگے کوئی نہیں بڑھتا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اس اونٹ کو میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: یہ آپ کا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے خرید لیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ! یہ تمہارا ہے اب اس سے جو چاہو کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے وہ اونٹ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ہبہ کیا، حالانکہ اور لوگ بھی شریک سفر تھے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ شرکائے مجلس ہدیے میں شریک نہیں ہوں گے، خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔ ہدیے کا حق دار وہی شخص ہے جسے پیش کیا گیا ہے۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق جب ہدیہ معین شخص کے لیے ہو تو اس میں شراکت نہیں ہو سکتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا عمرو سے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ وہ سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور عمر ؓ کے ایک سرکش اونٹ پر سوار تھے۔ وہ اونٹ آنحضرت ﷺ سے بھی آگے بڑھ جایا کرتا تھا۔ اس لیے ان کے والد (عمر ؓ) کو تنبیہ کرنی پڑتی تھی کہ اے عبداللہ ! نبی کریم ﷺ سے آگے کسی کو نہ ہونا چاہئے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! کہ عمر ! اسے مجھے بیچ دے۔ عمر ؓ نے عرض کیا یہ تو آپ ہی کا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسے خرید لیا۔ پھر فرمایا، عبداللہ یہ اب تیرا ہے۔ جس طرح تو چاہے استعمال کر۔
حدیث حاشیہ:
مطابقت ظاہر ہے کہ عبداللہ کے ساتھ والے اس اونٹ میں شریک نہیں ہوئے، حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی دور رس نظر بصیرت سے اس امر کوثابت فرمایا ہے کہ مجلس میں خواہ کتنے ہی لوگ بیٹھے ہوں، ہدیہ صرف اس کو دیا جائے گا جو اس کا مستحق ہے۔ اسی باریک بینی نے حضرت امام کو یہ مقام عطا فرمایا کہ فن حدیث کی گہرائیوں تک پہنچنا یہ صرف آپ کا حصہ تھا جس کی وجہ سے وہ امیرالمؤمنین فی الحدیث سے مشہور ہوئے۔ اب آپ کے اس خداداد منصب سے کوئی حسد کرتا ہے یا عناد، اس سے انکار کرتا ہے تو وہ کرتا رہے۔ حدیث نبوی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیرفانی قبولیت دی جو تاقیام دنیا قائم رہے گی۔ إن شاءاللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): That he was in the company of the Prophet (ﷺ) on a journey, riding a troublesome camel belonging to 'Umar. The camel used to go ahead of the Prophet, so Ibn 'Umar's father would say, "O 'Abdullah! No one should go ahead of the Prophet." The Prophet (ﷺ) said to him, "Sell it to me." 'Umar said to the Prophet (ﷺ) "It is for you." So, he bought it and said, "O 'Abdullah! It is for you, and you can do with it what you like."