تشریح:
(1) شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں: اس میں علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی کہے: ’’میں نے یہ لونڈی تجھے خدمت کے لیے دی ہے۔‘‘ تو اس کا مقصد لونڈی کی خدمت گزاری ہبہ کرنا ہے، اس کی ذات ہبہ کرنا نہیں کیونکہ لفظِ اخدام، اس کے مالک بن جانے کا تقاضا نہیں کرتا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’میں نے تجھے یہ مکان رہنے کے لیے دیا تو اس کا مقصد مکان سے نفع پہنچانا ہے مکان کا مالک بنانا نہیں۔‘‘ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کہا: ’’میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا۔‘‘ تو اس سے ہبہ مراد ہو گا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر قرینہ عرف عام پر دلالت کرتا ہے تو معنی عرف عام کے مطابق متعین کیے جائیں، بصورت دیگر دونوں مقام پر لغت کے مفہوم کے مطابق عمل ہو گا۔ اگر کسی قوم میں اخدام کے معنی ہبہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور کوئی شخص مطلق طور پر اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اور اس کا مقصد مالک بنانے کا ہے تو یہی معنی مراد ہوں گے، اور جو شخص ہر حال میں اس سے عاریت مراد لیتا ہے وہ اس متفق علیہ موقف کی مخالفت کرتا ہے۔ (فتح الباري:303/5)